سرینگر : وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کے روز کہا کہ جموں و کشمیر میں زراعت کا شعبہ نہ صرف معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے بلکہ اس خطے کی ثقافت اور شناخت کا بھی مرکزی ستون ہے، اور اس یونین ٹیریٹری کا مستقبل نوجوان سائنسدانوں کے ہاتھوں میں ہے۔شیرِ کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرلسائنسزاینڈٹیکنالوجی کشمیر (سکاسٹ۔ کشمیر) کے چھٹے کنووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیرکی 70فیصد سے زیادہ آبادی براہِ راست یا بالواسطہ زراعت سے وابستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں زراعت میں تبدیلی کا جو وژن ہے وہ شیخ محمد عبداللہ کے اصولوں پر مبنی ہے، اور آج یہ وژن ہر لیبارٹری اور لیکچر ہال میں جھلکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ادارے نے معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں باغبانی کی تحقیق، بلند علاقوں میں پائیدار زراعت، جانوروں کی پرورش اور نامیاتی زرعی طریقوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
’یہ گریجویٹس صرف ڈگری ہولڈرز نہیں بلکہ عملی مسائل کے حل نکالنے والے افراد بن رہے ہیں۔‘وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ماضی کی زراعت آج کے چیلنجز کا سامنا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی، زمین کی خرابی، اور مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال اور ساتھ ہی نئی نسل کی ترقی اور مواقع کی خواہشات کو بڑے چیلنجز قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے کئی ڈیٹا پر مبنی اصلاحاتی پروگرام شروع کیے ہیں تاکہ زمینی سطح پر حقیقی تبدیلی لائی جا سکے، جن میں جامع زرعی ترقی کا پروگرام ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
’یہ پروگرام، جس پر 5ہزارکروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، سائنس، مالیات اور حکمرانی کو یکجا کرتا ہے تاکہ زراعت کو ایک قدر افزا اور ٹیکنالوجی پر مبنی شعبے میں تبدیل کیا جا سکے۔
‘وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت سائنسدانوں، کاروباری افراد اور کسانوں کے ساتھ مل کر کئی محاذوں پر کام کر رہی ہے، جن میں پریسجن فارمنگ، ڈیری ماڈرنائزیشن اور فصلوں کی کٹائی کے بعد پراسیسنگ شامل ہیں۔29 بڑے منصوبوں کو سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے جن میں ہائی ڈینسٹی سیب و اخروٹ کے باغات، بھیڑ بکریوں کے جھ±نڈ، زعفران کی بحالی، اور نئے ایگری بزنس ماڈلز شامل ہیں۔‘انہوں نے گریجویٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ کا میدان ہے اور آپ کا موقع ہے۔
حکومت کا مشن نوجوانوں کی خواہشات کو مضبوط بنانا ہے، اور فوڈ پراسیسنگ، ایگری ٹیک، ڈیری، اور ہارٹیکلچر میں سینکڑوں اسٹارٹ اپس کو پہلے ہی مدد دی جا چکی ہے۔ اگر آپ آئیڈیاز اور بزنس پلان لے کر آئیں گے تو آپ کو مکمل سپورٹ دی جائے گی۔‘انہوں نے کہا کہ اگر نوجوان قیادت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو حکومت ان کے لیے پلیٹ فارم بنائے گی۔
انہوں نے گریجویٹس کو تبدیلی کے نئے علمبردار قرار دیا۔براہِ راست خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کو آپ کے علم کے ساتھ آپ کی ہمت، ہمدردی اور کردار کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جرات سے آئیڈیاز سامنے لائیں، ایگری اسٹارٹ اپس بنائیں، کسانوں کے گروپس کے ساتھ مشورہ کریں، اور زرعی توسیعی خدمات کو ڈیجیٹلائز کریں۔ انہوں نے کہا کہ گریجویٹس کو سوسائٹی اور سائنس کے درمیان پل بننے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی مٹی سے جڑے رہیں اور اپنی زمین و قوم کو کبھی نہ بھولیں۔ ’چاہے وہ بنگلور جائیں یا کہیں اور، وہ جموں و کشمیر کو اپنے دل میں لے کر جائیں۔ انہیں ایک پرامن اور خوشحال جموں و کشمیر کی تعمیر میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے۔‘آخر میں انہوں نے گریجویٹس سے سوال کیا کہ کیا وہ چھوٹے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے، موسمیاتی لحاظ سے ہوشیار زراعت کے حل تیار کرنے، دیہی روزگار پیدا کرنے والے ایگری انٹرپرائزز بنانے، یا آئندہ نسلوں کی رہنمائی کرنے میں مدد دے سکتے ہیں؟انہوں نے کہا:’اگر ان کا جواب ہاں ہے تو انہیں جموں و کشمیر حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔‘