بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، مگر محض یہ جملہ دہرا دینا کافی نہیں۔ ان کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت ایک حساس، نازک اور طویل عمل ہے، جو صرف والدین یا اساتذہ کی ذمہ داری نہیں، بلکہ پورے سماج، تعلیمی نظام اور سیول سوسائٹی کی مشترکہ امانت ہے۔ اگر اس امانت میں کوتاہی برتی جائے تو آنے والے کل کے معمار کمزور بنیادوں پر کھڑے ہوں گے اور نتیجتاً معاشرہ اخلاقی، فکری اور تمدنی زوال کی نذر ہو گا۔بچوں کی تربیت کا پہلا اور سب سے اہم مرکز گھر ہوتا ہے۔ والدین محض روزی کمانے والے یا سہولیات فراہم کرنے والے نہیں بلکہ شخصیت سازی کے معمار بھی ہوتے ہیں۔ آج کے تیز رفتار دور میں جب والدین خود سوشل میڈیا، سمارٹ فون اسکرینز اور مصروفیات کے اسیر ہو چکے ہیں، بچے ایک طرح کی ’خاموش یتیمی‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ محبت، رہنمائی اور وقت وہ تحفے ہیں جو والدین کو اپنے بچوں کو ہر روز دینا چاہیے، ورنہ یہ خلا کل کو باغی، منتشر یا غیر حساس ذہنوں کو جنم دے گا۔
ٹیکنالوجی سہولت کے لیے ہے، مگر بے لگام استعمال آہستہ زہر بن جاتا ہے۔ سمارٹ فونز نے بچوں کی معصوم آنکھوں سے کھیل کے میدان، کتابوں کی خوشبو اور رشتوں کی حرارت چھین لی ہے۔ والدین اکثر خود کو مصروف رکھنے کے لیے بچوں کو موبائل تھما دیتے ہیں، بے خبری میں ایک ایسی لت میں دھکیلتے ہوئے جو ا±ن کی توجہ، یادداشت، نیند اور اخلاق پر مہلک اثر ڈالتی ہے۔ بچے اب کہانیوں کے سنہرے کرداروں کے بجائے یوٹیوب کے شور اور انسٹاگرام کی چمک میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔اساتذہ صرف نصاب پڑھانے والے نہیں بلکہ کردار کے معمار ہوتے ہیں۔ ایک استاد کی نرم نظر، سادہ بات اور اخلاص بھرا رویہ عمر بھر کی سمت متعین کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے بیشتر تعلیمی ادارے تربیت کے بجائے صرف تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ مارکس، گریڈز اور ٹیسٹ سسٹم نے بچے کو ایک’پروجیکٹ‘بنا دیا ہے، حالانکہ ایک بچہ پہلے انسان اور بعد میں طالب علم ہے۔ اسکولوں اور کالجوںمیں اخلاقی تربیت، سماجی شعور اور زندگی کے عملی پہلوو¿ں پر بات ہونا از حد ضروری ہے۔
اگر کسی بچے کے ہاتھ میں پتھر ہے، تو پورا سماج اس پتھر کے وزن کا ذمہ دار ہے۔ گلیوں، بازاروں، میلوں اور میڈیا پر بچے جو دیکھتے اور سیکھتے ہیں، وہ ان کی تربیت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمارا سماج اب نہ برائی کو روکنے والا رہا، نہ اچھائی کو سراہنے والا۔ جنسی جرائم، تشدد، لاقانونیت اور بداخلاقی کے جو مناظر بچے روزانہ دیکھتے ہیں، وہ ان کی معصومیت کو زنگ آلود کر دیتے ہیں۔ معاشرے کا فرض ہے کہ وہ نونہالوں کے لیے ایک ایسا ماحول فراہم کرے جو ان کے اندر سوال کرنے، سچ بولنے اور عزت کرنے کی بنیاد ڈالے۔سیول سوسائٹی کا کام صرف احتجاج کرنا نہیں، بلکہ اصلاحی تحریکیں، تربیتی ورکشاپس، والدین اور اساتذہ کی کونسلنگ اور بچوں کے لیے مثبت سرگرمیوں کا بندوبست کرنا بھی ہے۔ جب ریاستی ادارے، والدین اور اسکول ناکام ہو جائیں، تب سیول سوسائٹی ہی وہ واحد طاقت ہے جو تربیت کے چراغ کو بجھنے سے بچا سکتی ہے۔ ہمیں ایسے فورمز، کتب خانے، فنونِ لطیفہ اور معاشرتی مکالمے کی فضا پیدا کرنی ہوگی، جہاں بچے اپنی ذات کو دریافت کر سکیں۔ایک مہذب معاشرہ صرف قانون سے نہیں، تربیت سے بنتا ہے۔ بچوں کی دنیا میں جو کچھ آج بویا جاتا ہے، وہ کل ہمارے سماج کا ثمر ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کل کا انسان بااخلاق، باہوش اور باشعور ہو، تو آج ہمیں اس کی تربیت میں خلوص، وقت، اور شعور کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ یہ ایک دن، ایک فرد، یا ایک ادارے کا کام نہیں بلکہ یہ ہم سب کا اجتماعی امتحان ہے، اور ہمیں یہ امتحان ہر روز دینا ہے۔
