جب دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے درمیان تناو¿ بڑھ جائے، تو یہ محض سرحدی کشمکش یا جغرافیائی سیاست کا مسئلہ نہیں رہتا ۔ یہ ہمارے گھروں، اسکولوں اور بچوں کے معصوم ذہنوں میں بھی ہلچل مچا دیتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی جہاں سیاسی سطح پر ایک بڑی آزمائش ہے، وہیں یہ والدین، اساتذہ اور دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے بھی ایک نازک موقع ہے، کیا وہ بچوں کو خاموشی سے تماشائی بنا رہنے دیں، یا ان کے ڈرتے، الجھتے ذہنوں کا ہاتھ تھام کر ان کے جذبات کو سمجھنے اور سنبھالنے میں ان کی مدد کریں؟۔یہ کشیدگی ایک نصابی عنوان نہیں، بلکہ بچوں کی ذاتی زندگیوں میں گھس آئی ہے۔ کسی پرائمری طالبہ کی کپکپاتی آواز میں جھلکتا اندیشہ، جو پوری طرح یہ سمجھ بھی نہیں پاتی کہ آخر خطرہ کیا ہے۔ کسی سات سالہ بچے کی خاموش آنکھوں میں وہ خوف، جو اسکول کی مشقوں اور فرضی بلیک آو¿ٹ کے بعد اسے گھیر لیتا ہے۔ یا پھر اس نو عمر کا اضطراب، جس کا والد فوجی ہے اور جسے سرحد پر تعیناتی کا حکم ملا ہے۔ یہ سب وہ لمحے ہیں جب بچپن پر دہشت کے سائے پڑ جاتے ہیں ، ایک ایسی دنیا کے احساس سے جو اب پہلے جیسی محفوظ نہیں لگتی۔خطے کی یہ بے چینی صرف لائن آف کنٹرول یا ٹی وی اسکرین تک محدود نہیں رہی۔ یہ اب گھروں کے دسترخوان، کلاس روم کی کھڑکیوں اور سوشل میڈیا کی خبروں میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ نہیں رہا کہ بچوں سے اس بارے میں بات کی جائے یا نہیں ، اصل سوال یہ ہے کہ ان کے اندر پیدا ہونے والے خوف کے لیے ایک نرم، محفوظ جگہ کیسے فراہم کی جائے؟ انہیں اس مشکل وقت سے سمجھداری اور شفقت کے ساتھ کیسے گزارا جائے؟
یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو صرف حساسیت سے نہیں بلکہ خلوص، دیانت اور نرم دلی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ بڑے بچے روس۔یوکرین جنگ یا غزہ میں جاری بحران کے بارے میں سن چکے ہوں، مگر یہ پہلا موقع ہے جب جنگ کا سایہ ان کی اپنی زندگیوں پر اتنے قریب سے پڑ رہا ہے۔ لہٰذا یہ لازم ہے کہ ان سے دنیا کی پیچیدگیوں کے بارے میں بات کی جائے ۔ اس کے اندھیروں کے بارے میں بھی۔ صرف ان کی حفاظت کی آڑ میں انہیں لاعلم رکھنا دانش مندی نہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ ان کی عمر اور ذہنی سطح کے مطابق، نرمی سے، سچ بیان کیا جائے۔یونیسف کی ہدایات کے مطابق، بچوں سے جنگ اور بحران پر گفتگو کرتے ہوئے ایک ایسا ماحول فراہم کرنا اہم ہے جہاں وہ کھل کر اپنے احساسات کا اظہار کر سکیں، جو کچھ انہوں نے سنا، دیکھا یا سمجھا، اس پر سوال کر سکیں اور اسے درست تناظر میں دیکھ سکیں۔ مشقوں، بلیک آو¿ٹس یا دیگر حفاظتی اقدامات کی منطق اور مقصد کو سمجھانا، ان کے ذہنوں میں موجود الجھنوں کو سلجھانا اور غلط اطلاعات سے نجات دینا اس عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں، مشرقی ایشیا سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا: ’یہ جنگ کا دور نہیں ہے‘۔ یہ جملہ محض سفارتی بیان نہیں بلکہ ایک رہنمائی بھی ہے ،خاص طور پر ان والدین اور اساتذہ کے لیے جو بچوں کو ایسی دنیا میں بڑا ہوتے دیکھ رہے ہیں جہاں وبا کے بعد کی بے چینی اور سیاسی انتشار ہر روز ایک نیا رخ لیتے ہیں۔ وہیں ایک سبق بھی موجود ہے، یہ کہ اگرچہ قوموں کو اپنی حفاظت کا حق حاصل ہے، لیکن طویل مدت میں پائیدار اور نازک امن ہی وہ ہدف ہے، جس کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے۔یہ وقت صرف سرحدوں پر کھڑے سپاہیوں کے لیے امتحان کا نہیں، بلکہ گھروں، اسکولوں اور دلوں میں امید زندہ رکھنے والوں کے لیے بھی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو دنیا کے تلخ حقائق سے خوف زدہ کرنے کی بجائے، انہیں اعتماد، حقیقت پسندی اور امن کی اہمیت کے ساتھ روشناس کرانا ہوگا۔ کیونکہ آنے والے کل کے معمار آج کے یہی نازک دل ہیں، جنہیں ہمارے الفاظ، ہمارے رویے اور ہمارے رویے میں پنہاں امن کا سبق درکار ہے۔
