ہفتہ, مئی ۳, ۲۰۲۵
14.1 C
Srinagar

امن کی راہ کدھر ہے؟۔۔۔۔۔

پہلگام میں پیش آنے والا دہشت گردانہ حملہ، جس میں26 معصوم جانیں لقمہ اجل بن گئیں، صرف ایک اندوہناک واقعہ نہیں بلکہ اس نے پورے برصغیر کو ایک بار پھر کشیدگی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان نہ صرف سفارتی محاذ پر سرد مہری بڑھ گئی ہے بلکہ سرحدوں پر عملی تصادم کی صورت بھی اختیار کر چکی ہے۔ باہمی اعتماد جو پہلے ہی ناپید تھا، اب مکمل طور پر خلیج میں بدل چکا ہے۔گزشتہ آٹھ روز سے کشمیر سے جموں تک لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحد پر شدید گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں اطراف کی افواج پوری شدت سے مورچہ زن ہیں اور وقفے وقفے سے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کی گونج صرف بارودی آوازوں میں نہیں بلکہ انسانی المیوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ چھتوں کے نیچے چھپے خاندان، کانپتے بچے اور خالی آنکھوں سے سرحد کی طرف تکتے بزرگ، یہ سب اس جنگی ماحول کے خاموش گواہ ہیں۔اگرچہ بھارت پاکستان کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا”مو¿ثر جواب“دے رہا ہے، لیکن اس صورت حال نے عالمی برادری کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس، امریکہ، اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک نے دونوں فریقین سے تحمل، بردباری اور سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر یہ کشیدگی یونہی بڑھتی رہی تو یہ خطہ کسی بھی وقت ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ایک ایسی جنگ، جو اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ یہ حقیقت خود ایک ایسا الارم ہے جو صرف سفارتی سطح پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی سنجیدگی سے سنا جانا چاہیے۔
اس ساری کشمکش میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام لوگ ہو رہے ہیں جو سرحدوں کے آس پاس زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جموں اور کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے افراد نہ صرف رات بھر فائرنگ کی آوازوں میں جاگتے ہیں بلکہ دن کے وقت اپنی روزمرہ زندگی سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ کسان کھیتوں تک نہیں جا سکتے، بچے اسکولوں سے دور ہیں اور گھروں کے در و دیوار بھی اب پناہ نہیں دے پاتے۔ ان علاقوں میں زندگی ایک مستقل اضطراب کا نام ہے، نہ روشنی کی ضمانت، نہ پانی کی روانی، نہ سکون کی شام۔دہشت گردی دنیا بھر کے لیے ایک ایسا زخم بن چکی ہے جو صرف ایک ملک کو نہیں بلکہ انسانیت کو لہو لہان کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کو الزام دینے کے بجائے اس ناسور کے خلاف سنجیدہ اور مشترکہ کوشش کریں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر لڑی جانی چاہیے۔ پڑوسی ملک کو درپردہ جنگ کی پالیسی ترک کر کے کھلے دل کے ساتھ آگے آنا ہو گا، کیونکہ اس وقت ا±س کی معیشت بدترین دباو¿ کا شکار ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں کا بوجھ وہ پہاڑ بن چکا ہے جس پر قوموں کے خواب دم توڑ دیتے ہیں۔امن کوئی کمزوری نہیں، بلکہ ایک بڑی دانش ہے۔ برصغیر کے دونوں ممالک کو تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔ جنگوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا، اور نہ ہی کوئی”فتح“ انسانی جانوں سے قیمتی ہو سکتی ہے۔ پہلگام جیسے المناک واقعات کو بنیاد بنا کر اگر دونوں ملک دہشت گردی کے خاتمے اور عوامی بھلائی کے لیے ایک میز پر بیٹھ جائیں، تو شاید یہی سانحہ ایک نئے امن کی بنیاد بن جائے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی حالات اور عوامی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ غربت، ناخواندگی اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہمارے مشترکہ چیلنجز ہیں۔ وہ وسائل جو بارود خریدنے پر خرچ ہوتے ہیں، اگر تعلیم، صحت اور روزگار پر لگائے جائیں، تو شاید برصغیر نہ صرف ایک پ±رامن خطہ بن سکے بلکہ ترقی کا استعارہ بھی۔دنیا بدل چکی ہے اور دشمنی اب صرف جنگ کے میدانوں تک محدود نہیں رہتی۔ اب وہ معیشت، سفارت کاری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی سمت نہ بدلی تو نہ صرف آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی بلکہ خود ہم بھی اس بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے۔آج بھی وقت ہے۔ میز پر بیٹھنے، بات کرنے اور ماضی کی تلخیوں سے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ کیونکہ اگر پہلگام کا زخم گہرا ہے، تو اس کا مرہم صرف تدبر، بصیرت اور انسان دوستی ہو سکتی ہے۔تاہم پڑوسی ملک کو بھی یہ زبان سمجھنی ہوگی ۔کہ وہ درپردہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔نہ وہ ماضی میں کچھ حاصل کرسکا ،نا ہی مستقبل میں کچھ حاصل کرسکتا ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img