پیر, مئی ۵, ۲۰۲۵
15.8 C
Srinagar

حالِ فضا، خیز ہوا کا۔۔۔۔۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ملک کے کئی علاقوں میں ایک ہی وقت میں گرمی، بارش، آندھی اور طوفان جیسے مظاہر بیک وقت رونما ہو رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کی تازہ رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف سوراشٹر، کچھھ اور راجستھان تپتے ہوئے موسم کی لپیٹ میں آ رہے ہیں، وہیں شمال مشرقی اور جنوبی ہندوستان کے کئی علاقے بارش اور طوفانی ہواو¿ں سے متاثر ہونے والے ہیں۔ جموں، ہماچل پردیش اور دہلی جیسے خطوں کے لیے بجلی گرنے اور تیز ہواو¿ں کی وارننگیں جاری کی جا چکی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ موسمیاتی تغیرات اب کوئی نظری بحث نہیں بلکہ زمینی حقیقت بن چکے ہیں، جن کے اثرات سے کوئی بھی خطہ محفوظ نہیں۔جموں و کشمیر جیسے قدرتی طور پر حساس اور پہاڑی خطے کے لیے یہ تبدیلیاں نہایت تشویشناک ہیں۔ حالیہ دنوں میں رام بن میں پیش آئے حادثات اور زمین کھسکنے کے واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ قدرتی آفات اب محض حادثہ نہیں رہیں، بلکہ ایک تسلسل بن چکی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے لیے قدرتی آفات کا سامنا کوئی نئی بات نہیں، مگر جو نیا ہے وہ ان واقعات کی شدت، تسلسل اور غیر متوقع نوعیت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں محض تشویش کا اظہار کافی نہیں، بلکہ فوری، سنجیدہ اور دوررس اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
اس پس منظر میں حکومت کی جانب سے شجرکاری مہمات کا آغاز خوش آئند ضرور ہے، لیکن اسے حتمی حل کے طور پر پیش کرنا ایک سادہ لوحی ہوگی۔ درخت لگانا ایک علامتی اور ابتدائی قدم ہو سکتا ہے، مگر موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع، ہمہ گیر اور سائنسی بنیادوں پر استوار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔یہی وقت ہے کہ حکومت اسکولوں، کالجوں اور جامعات کو موسمیاتی آگہی کا مرکز بنائے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے لیے ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جو صرف نظری علم تک محدود نہ ہوں بلکہ ماحول سے عملی ربط پیدا کریں۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بیداری ورکشاپس، مباحثے، سمینار اور سمپوزیم کا انعقاد طلبہ کی سوچ میں ماحول دوست شعور بیدار کر سکتا ہے۔ نئی نسل کو موسمیاتی چیلنجز سے باخبر کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، کیونکہ یہی نسل مستقبل میں فیصلے کرے گی ، اور وہ فیصلے یا تو اس زمین کو بچا سکتے ہیں یا تباہی کے دہانے پر لے جا سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ حکومت منصوبہ سازی میں ماہرین کی رائے کو مرکزی حیثیت دے۔ جموں و کشمیر جیسے خطے کے لیے قومی سطح پر بنائے گئے ماحولیاتی ماڈلز اکثر ناکافی ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں کی جغرافیائی، موسمیاتی اور معاشی صورت حال باقی ملک سے مختلف ہے۔
لہٰذا ماہرین ماحولیات، ارضیات اور موسمیات کی رائے لے کر یہاں کے لیے ایک خاص اور مقامی تناظر میں مربوط منصوبہ بندی کی جائے۔اس کے ساتھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام کو فعال، جدید اور نچلی سطح تک مستحکم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں موجود لوگوں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، اور مقامی رضاکار نظام کو متحرک کیا جائے تاکہ ابتدائی ردعمل فوری اور مو¿ثر ہو۔آخر میں، حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ماحولیاتی تحفظ کو محض ماحولیاتی وزارت کی ذمہ داری نہ سمجھنا ہوگا، بلکہ اسے ترقیاتی پالیسی کے ہر پہلو میں شامل کرنا ہوگا۔ خواہ وہ زراعت ہو، سیاحت، انفراسٹرکچر یا شہری ترقی ، ہر میدان میں ماحولیاتی اثرات کو ترجیحی بنیاد پر دیکھا جائے۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی صرف موسم کا مسئلہ نہیں، یہ زندگی کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے ابھی بھی اپنی روش نہ بدلی، تو آنے والی نسلوں کو ایک ایسا کرہ ارض ورثے میں ملے گا جس پر جینا صرف مشکل ہی نہیں، شاید ناممکن ہو۔یہ وقت ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے المیے کو سنجیدگی سے سمجھیں، تعلیم کو ہتھیار بنائیں، ماہرین کو ساتھ لائیں اور ہر سطح پر مو¿ثر، سائنسی اور انسان دوست اقدامات کی بنیاد رکھیں ، کیونکہ وقت اب بھی ہے، لیکن بہت کم۔

Popular Categories

spot_imgspot_img