بٹہ مالو میں شراب کی دکان کھولنے کے خلاف حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ؛ اگر حکومت ناکام ہوئی تو علما، سول سوسائٹی اور عوام احتجاج پر مجبور ہوں گے
سرینگر:میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے مرکزی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کے موقعہ پر عوام کے ایک بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج عوام اور حکام کی توجہ ایک نہایت سنجیدہ اور تشویشناک معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ بٹہ مالو کے تاجروں اور کاروباری طبقے نے عوامی آگاہی کے لیے ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ علاقے میں شراب کی دکان کھولنے کے خلاف بطور احتجاج تین دن کے لیے اپنی دکانیں بند رکھیں گے، اور اس ضمن میں حکام سے فوری مداخلت اور کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات نہایت پریشان کن ہے اور کشمیری عوام کے لیے قطعی ناقابل قبول ہے اور یہ ہمارے مذہبی، ثقافتی اور سماجی اقدار پر ایک سنگین حملہ ہے اور ان اقدار کی سراسر توہین ہے یہ ہماری قوم اور آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ پہلے ہی ہم منشیات کی وبا سے دوچار ہیں اور اب حکام شراب کو فروغ دے کرعوام اور ہمارے معاشرتی و ثقافتی ڈھانچے کو مزید تباہ کر رہے ہیں۔
میرواعظ نے کہا کہ حکام بخوبی جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، جہاں شراب نوشی اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے وہیں یہ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی اقدار سے بھی متصادم ہے، اس کے باوجود اس کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر وہ اسے گجرات جیسےDry State میں کیوں فروغ نہیں دیتے، صرف جموں و کشمیر ہی کیوں؟ کیا یہاں دہائیوں سے بغیر شراب کے سیاحت پروان نہیں چڑھی؟ جبکہ یہ ایک عام مگر مضحکہ خیز دلیل دی جاتی ہے۔
میرواعظ نے عمر عبداللہ حکومت سے پرزور مطالبہ کیاکہ وہ فوری طور پر مداخلت کرے اور اس اقدام کو فی الفور روکے۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے منصوبوں کو آغاز ہی میں ختم کیا جائے۔ اگر وہ ناکام رہے، تو علمائ، سول سوسائٹی اور عوام کے پاس اس اقدام کے خلاف احتجاج اور سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔