نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مرشد آباد میں وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران مبینہ طور پر شروع ہونے والے فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد کے پیش نظر مغربی بنگال میں صدر راج نافذ کرنے اور نیم فوجی دستوں کی فوری تعیناتی کی درخواست پر کوئی فوری ہدایت دینے سے آج انکار کردیا۔
جسٹس بی آر گوئی اور آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ کے سامنے اس معاملے کی فوری سماعت کے لئے اسے لسٹ کیا گیا تھا۔
ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین، درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے، عدالت عظمی سے ریاست میں جاری تشدد کو اجاگر کرنے کے لیے اضافی دستاویزات دائر کرنے کی اجازت طلب کی اور آئین کے آرٹیکل 355 کے فوری نفاذ کی اپیل کی ۔
ایڈوکیٹ جین نے کہا ” ریاست میں نیم فوجی دستوں کی فوری تعیناتی کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ کل سماعت کے لیے لسٹ کیا گیا ہے۔ میں نے آرٹیکل 355 کی درخواست کے لیے ایک اضافی درخواست دائر کی ہے
اس درخواست پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جسٹس گوئی نے سوال کیا "آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر راج نافذ کرنے کے لیے صدر کو رٹ آف مینڈیمس جاری کریں؟ جیسا کہ ہم پر قانون سازی اور ایگزیکٹو ڈومینز میں دخل اندازی کا الزام ہے۔”
جج موصوف حالیہ معاملات میں عدالت عظمی کو درپیش تنقید کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں ایک کیس بھی شامل ہے جہاں اس نے گورنر اور صدر کو ریاستی بلوں پر مقررہ وقت کے اندر کام کرنے کی ہدایت دی تھی، جس سے عدالتی اوورریچ پر ایک بڑی بحث چھڑ گئی تھی۔
عدات سے مداخلت کی تازہ درخواستیں عرضی گزار ششانک شیکھر جھا کی زیر التوا رٹ پٹیشن میں دائر کی گئی ہیں، جس میں مغربی بنگال میں تشدد کی تحقیقات کے لیے عدالت کی نگرانی والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مغربی بنگال کے رہنے والے دیو دتہ ماجد کی ایک دیگر درخواست میں جھڑپوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بنچ نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا کو نشانہ بنانے والے ان کے ریمارکس پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کے ممبران پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی اجازت کے لئے ایک الگ زبانی تذکرے کی بھی سماعت کی ۔
تاہم، عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت دی کہ وہ آگے بڑھنے سے پہلے ہندوستان کے اٹارنی جنرل کی رضامندی حاصل کرے۔
اس معاملے کی اگلی سماعت 22 اپریل کو ہو گی۔