کشمیر کی وادی جہاں ہر طرف سرسبز کھیت، بہتے چشمے اور فطری خوبصورتی کی شہرت ہے، آج ایک سنجیدہ بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں وادی میں8.3 فیصد زرعی اراضی ختم ہو چکی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ اب70 فیصد غذائی اجناس اور سبزیاں بیرونِ ریاست سے درآمد کی جاتی ہیں۔ یہ اعدادوشمار صرف کسانوں یا زرعی ماہرین کے لیے نہیں، بلکہ ہر شہری کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔زرعی زمین کا تیزی سے کنکریٹ جنگل میں تبدیل ہونا محض زمین کا مسئلہ نہیں، یہ وسائل، خوراک، معیشت اور آنے والی نسلوں کے حق حیات کا مسئلہ ہے۔ جب زمین کا سینہ سیمنٹ، اینٹ اور سریے سے بھر دیا جاتا ہے تو نہ صرف خوراک کی خودکفالت چھن جاتی ہے بلکہ ماحولیاتی توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔ بارشوں میں بے ترتیبی، سیلابوں کی شدت، اور گرمی کی نئی لہروں کا تعلق اسی غیر منصوبہ بند شہری پھیلاو¿ سے جڑا ہے۔
مزید خطرناک بات یہ ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے کوئی جامع منصوبہ بندی یا پالیسی نہیں۔ زرعی زمینوں کو تعمیرات کے لیے استعمال کرنے کے عمل میں نہ تو مقامی ضرورتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، نہ ہی ماحولیاتی نتائج کو۔ ’ماسٹر پلان‘ جیسی دستاویزات اکثر کاغذی حد تک محدود رہ جاتی ہیں، جبکہ زمین پر بے رحم بلڈوزر اپنا کام دکھا چکے ہوتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے کسان نہ صرف اپنی زمین سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ اپنے روزگار، اپنی شناخت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل سے بھی۔ انہیں زبردستی یا ناداری کے باعث زمین بیچنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور بدلے میں جو ملتا ہے وہ عارضی مالی سہولت تو ہو سکتی ہے، مگر پائیدار روزگار نہیں۔زرعی خودکفالت کا مطلب صرف اپنی خوراک اگانا نہیں بلکہ اپنی معیشت کو مقامی بنیادوں پر مستحکم رکھنا بھی ہے۔ جب ایک خطہ بیرونِ ریاست سے سبزیاں، چاول، دالیں اور یہاں تک کہ دودھ بھی منگوانے پر مجبور ہو، تو وہ صرف غذائی اعتبار سے نہیں، بلکہ سیاسی و اقتصادی طور پر بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ کل کو اگر رسد متاثر ہو جائے، تو کیا ہوگا؟ کیا ہم بھوکے رہنے کو تیار ہیں؟
ماحولیاتی ماہرین بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ زمین کا بے تحاشا استعمال زیر زمین پانی کے ذخائر کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ کنکریٹ زمین بارش کو جذب نہیں ہونے دیتی، جس سے خشک سالی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جنگلات اور کھیت جب ختم ہوتے ہیں، تو مقامی موسمیاتی نظام بگڑ جاتا ہے اور یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ زرعی اراضی کے تحفظ کو فوری پالیسی ترجیح بنایا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف سخت قانون سازی کرے بلکہ موجودہ قوانین پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے۔ ساتھ ہی، کسانوں کو جدید سہولیات، سبسڈی، اور مارکیٹ تک براہِ راست رسائی فراہم کی جائے تاکہ وہ زمین سے جڑے رہیں اور نوجوان نسل بھی اس پیشے کو اپنانے پر فخر محسوس کرے۔اگر آج ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو کل ہمیں صرف خوراک ہی نہیں، اپنی مٹی، اپنی ثقافت، اور اپنی خودداری کے لیے بھی در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم ترقی اور تحفظ میں توازن پیدا کریں، ورنہ ہم وہ قوم کہلائیں گے جو اپنی زمین کھو کر بھی خاموش رہی۔
