
عبدلمجید بھدرواہی
میں بچپن سے ہی گھر میں لگے آئینے میں اپنی صورت دیکھتا آیا ہوں ۔ کئی بار سوچا کہ آئینہ مجھے میری وہی شکل وصورت دکھاتا ہے جو اسے دیکھتے وقت عیاں ہوتی ہے۔ ایک گھڑی یا ایک پل پہلے میں نے جو آئینے میں اپنی شکل کھی تھی وہ دوبارہ نہیں دکھاسکتا۔ اس میں وہ طاقت اور حیثیت ہی نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس پچھلے عکس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہوتا۔ ایسا کرنا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ بے چارہ کیا کرے۔ میں نے بارہا اس سے کہا کہ میں تیرے سامنے دس سال کی عمر سے ہی کھڑا رہ کر اپنی صورت دیکھتا رہا ہوں مگر کیا مجال ہے کہ تو مجھے دو گھڑی پہلے کی شکل کا عکس دوبارہ پھر دکھا سکے۔ یہ تو تجھ میں صلاحیت ہی نہیں ہے۔
تجھے اس بات کا گھمنڈ ہے کہ ہر شخص غریب سے لے کر امیر تک ، کنگال سے لے کر لکھ پتی تک سوالی سے لے کر منسٹر ۔ چیف منسٹر ، صدر، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تک تیرے آگے صبح سویرے کھڑا ہوتا ہے۔ تو ہر ایک کو اس لمحے کی شکل واپس دکھاتا ہے۔ پچھلے لمحے کی شبیہ کا ریکارڈ دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں یہ پتہ لگانا چاہتا تھا کہ میری شکل میٹرک میں ، انٹرمیڈیٹ میں، کالج میں یونیورسٹی میں ، ٹریننگ وغیرہ میں کیا تھی۔ کیا تیرے پاس وہ سب کچھ محفوظ ہے یا تو اس عکس کو اسی وقت ضائع کر دیتا ہے۔ انسان آگے سے ہٹ گیا تو کھیل ختم یہ جہنم کیا تیرے پاس ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ کیا اس لئے تو ان کو مٹادیتا ہے۔ میرے پاس تو ان کی بہت اہمیت اور قیمت ہے۔ اب میں وہ پچھلا ریکار ڈ لاؤں تو کہاں سے لاؤں۔
تم سے تو بہتر میری وہ محبوبہ ہے جو مجھے چوری چھپے لکھیوں سے آتے جاتے دیکھتی تھی اور آج بھی دیکھتی ہے۔ وہ مجھے اپنی یادداشت پر بناکسی دباؤ اور زور زبردستی کے میرا ہر نقطہ اور زاویہ بتا دیتی ہے بلکہ اس نے تو ایک دن مجھے یہاں تک کہہ دیا کہ آج پورے پچاس سال ہو گئے ہیں مگر مجھے وہ تیری ہر دن ہر مہینے اور ہر سال کی شکل آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں کسی وقت بغیر وقت ضائع کئے بنارکاوٹ تیرا قلمی چہرہ ہو بہو بنا سکتی ہوں۔
آئینے اتجھ سے تو میری محبوبہ ہی بھلی ہے جس سے میرا کب کا ترک تعلق ہوا ہے۔
میں تو اب محسوس کرتا ہوں کہ میں نے کیونکر اس بے وفا آئینہ کو دوست بنایا۔ جب میں اس دوشیزہ کی زبانی اس کا بنایا ہوا اپنا قلمی چہرہ سنتا ہوں تو دنگ ہو جاتا ہوں پھر افسوس کرتا ہوں کہ میں کیوں اس بے وفا شیشے کے آگے صبحسویرے دستہ بدستہ کھڑا ہو جاتا تھا اور اب بھی بے تابی سے اس میں اپنی شکل دیکھتا رہتا ہوں۔
پہلے کے مقابلے میں بہت بدلے بدلے لگ رہے ہو۔ کیا بات ہے سب ٹھیک ہے نا۔ ڈارانگ ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے پچھلی بار جب میں نے چوری چھپے دیکھا تھا تب سے بہت کمزور لگ رہے ہو۔ نہ کپڑوں کے وے کا ڈھنگ ۔ بوٹ ہے تو پالش ہی نہ کی ہے۔ بالوں میں تیل اور نگہ پہناوے کاڈ کنگھی نہیں۔ نہ چال نہ ڈھال نہ وہ پھرتی ۔ بالکل نحیف سی صورت ۔ بالوں میں سفیدی آئی ہوئی ہے۔ ایسا کیا ہو گیا ۔
پچھلے ہی مہینے آپ کے سر کے بال بالکل سیاہ تھے ۔ آج ایسا کیا ہوا کہ سفیدی نے سیاہی کو مات کر دیا اور خود براجمان ہو گئی۔ سچائی کیا ہے۔ اگر نہیں بتا سکتے تو کوئی بات نہیں ، میں اس پر زیادہ اصرار نہیں کروں گی۔
کیا آپ نے آئینہ نہیں دیکھا۔ کیا اس نے آپ کو یہ بدلا ہوا چہرہ اور رخ نہیں دکھایا ۔
نہیں جانِ من! وہ تو وہی چہرہ دکھاتا ہے جو اس وقت موجود ہوتا ہے۔ تقابلی جائزہ کے لئے اس کے پاس کوئی ثبوت یار یکا ڈنہیں ہے۔ اصلی آئینہ تو
سچا دوست ہی ہوتا ہے۔“
خیر چھوڑ و ! میں نے پوچھا ۔ آپ کیسی ہو۔ اس نے کہا۔ میں ٹھیک ہوں ” کیا آپ کی شادی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا۔ اس نے جواب دیا۔ نہیں تو کیا میں ایسی تھی کہ پیار ایک سے اور شادی دوسرے سے کرتی ۔ میں اکیلی ہوں۔ بالکل تن تنہا۔ والدین اب فوت ہو چکے ہیں ۔ بھائی اور بہن کی شادی بھی ہوگئی ہے ۔ وہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم ہیں۔ باقی دوست احباب سب چھوٹ گئے۔ اس نے یکدم سب کچھ سنا دیا۔
اس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا مگر میں نے یہ سب دل پر نہ لیا کیونکہ زندگی بہت تھوڑی ہے۔ اب میری آپ سے حقیر سی نصیحت ہے کہ آپ بھی سب بھول جاؤ۔ جو کچھ ہوا اسے پیٹھ کے چھے چھوڑ دو۔ میں اس کی تفصیل نہیں پوچھوں گی۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا۔ مجھے بتاؤ کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں تا کہ مجھے آپ کی ہمدردی ، رفاقت ، خلوص، پیار ومحبت کا بدلہ چکانے کا موقعہ مل سکے۔
میں نے پوچھا۔ ” آپ سے دوبارہ میں کہاں ملوں ” آپ ہی جگہ اور وقت کا تعین کرو۔ اتنا مجھے یاد ہے کہ نکاح خوانی کے فوراً بعد آپ نے مجھ سے آنکھیں ہی پھیر دی تھیں۔ جیسے ہم کبھی ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہی نہ تھے۔ میں کئی روز تک روتی اور اپنی قسمت کو کوستی رہی۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ آپ جیسا مخلص شخص بھی کبھی بدل سکتا ہے کیونکہ جب میں نے ایک بار بات کرنا چاہی بھی تھی تو تم نے صرف اتنا کہا تھا چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں۔
”میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کر حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔ تب سے سب کچھ بھلانے کی کوشش کر رہی ہوں۔
” کیا آپ میری یہ ملاقات کرنے کی خواہش کالج گراؤنڈ میں آج چار سوا چار بجے شام پوری کرو گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری یہ پیشکش قبول کر لو گے ۔ میں بالکل اسی طرح جس طرح پہلے ملا کرتی تھی، ہلوں گی۔ اور شاید وہ پیار کا دھاگہ جہاں سے ٹوٹ گیا تھا۔ پھر وہیں اسے گانٹھ دیکر اس کو جوڑ دیں گے۔ جہاں سے تم نے اس کو منقطع کیا تھا۔ مجھے امید ہے آپ پھر یہ نہ کہو گے کہ چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں بلکہ یہ کہو گے کہ ۔ آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں –
دراصل میری شادی کے ایک سال کے اندر اندر ہی ہمارے تعلقات کشیدہ رہنے لگے جس کی کوئی معقول وجہ نہ تھی ۔ روز روز کھٹا پھٹی رہنے لگی ۔ ہے۔ غلط فہمیاں ہونے لگیں۔ اس دن تو اس نے تمام حدیں جھگڑے ہونے لگے۔ غلط فہمیاں : پارکیں ۔ میں وضاحت سے بولتا گیا۔ آخر کار ہم دونوں نے خود ہی آپس میں مشورہ کر کے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے ہم دونوں جدا ہو گئے۔ شکریہ ہے کہ شادی کے دوسال کے دوران ہمارے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا۔ ورنہ اس کا مستقبل اور بھی مخدوش ہوا ہوتا۔
مجھے امید ہے کہ ملاقات کے بعد آپ کی چال ڈھال اٹھنا بیٹھنا ہنسنا ہنسانا۔ مذاق کرنا صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنا۔ بالوں کی رونق پھر سے واپس آجائے گی ۔ رخسانہ نے یقین کے ساتھ کہا۔ اس طرح ہم دونوں نے ایک دوسرے میں نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ دلچسپی لینا شروع کی۔ اپنی اپنی خاموشی کو زبان دے کر سب کچھ کہہ ڈالا جس کی اس وقت ضرورت تھی۔ اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔“ میں نے جوابا کہا۔
پھر رخسانہ نے کل شئی یرجعوا الی اصلح (ترجمہ، ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے ) قرآن کی یہ آیت سنا کر اپنی بات ختم کر ڈالی ۔