مختار احمد قریشی۔
طلاق اور خلع کے بنیادی اسباب میں باہمی اختلافات، عدم برداشت، اور رشتے میں اعتماد کی کمی شامل ہیں۔ ازدواجی زندگی میں چھوٹے چھوٹے جھگڑے اگر وقت پر حل نہ کیے جائیں تو یہ بڑے مسائل میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جس سے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔ مالی مسائل، سسرالی دباؤ، اور شادی شدہ زندگی میں جذباتی و جسمانی تشدد بھی علیحدگی کی وجوہات میں شامل ہیں۔ مزید برآں، عدم مطابقت، شادی سے غیر حقیقی توقعات، اور شوہر یا بیوی کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ازدواجی زندگی میں کشیدگی پیدا کرتا ہے۔ جدید دور میں سوشل میڈیا اور غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی کئی رشتے ختم کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ بعض اوقات والدین کی غیر ضروری مداخلت اور غیر متوازن خاندانی نظام بھی شادی کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں۔
طلاق اور خلع کے اثرات نہ صرف میاں بیوی پر بلکہ پورے خاندان پر مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہوتے ہیں، جو والدین کی علیحدگی کے نتیجے میں ذہنی دباؤ، عدم تحفظ، اور جذباتی عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سماجی سطح پر بھی طلاق یافتہ افراد کو طرح طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں، جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ مالی طور پر بھی دونوں فریق مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، خاص طور پر خواتین جو گھریلو زندگی کے بعد اچانک خود کفالت کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب، بعض صورتوں میں طلاق ایک مثبت پہلو بھی رکھتی ہے، جہاں دونوں افراد زبردستی ایک نامکمل رشتہ نبھانے کے بجائے ایک نئی اور بہتر زندگی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
طلاق اور خلع کا اثر صرف میاں بیوی یا ان کے بچوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ خاندانی نظام میں دراڑ پڑنے سے معاشرتی استحکام متاثر ہوتا ہے اور افراد میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں شادی کو مقدس رشتہ سمجھا جاتا ہے، وہاں طلاق یافتہ افراد کو تعصب اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے نوجوانوں میں شادی کے بارے میں خوف اور بداعتمادی پیدا ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے لوگ شادی کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ بعض صورتوں میں، علیحدہ ہونے والے افراد دوبارہ شادی کے مواقع میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، خاص طور پر خواتین کو نئے رشتے کی قبولیت کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔
نفسیاتی طور پر طلاق اور خلع میاں بیوی اور ان کے بچوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اکثر افراد طلاق کے بعد ڈپریشن، اضطراب، اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ جذباتی طور پر رشتے سے جُڑے ہوتے ہیں، ان کے لیے علیحدگی ایک بہت بڑا صدمہ ثابت ہوتی ہے، جو ان کی شخصیت پر دیرپا اثرات ڈال سکتی ہے۔ بچوں پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات پڑتے ہیں، کیونکہ والدین کی علیحدگی ان کی پرورش، تعلیمی کارکردگی، اور مستقبل کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔ بعض اوقات، بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور خود کو سماجی طور پر کمزور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ طلاق کے بعد پیدا ہونے والی تنہائی، خوف، اور عدم تحفظ بعض افراد کو منفی رویوں کی طرف بھی مائل کر سکتا ہے، جیسے کہ خودکشی کے خیالات، انتقامی جذبات، یا سماجی الگ تھلگ رہنے کا رجحان۔
طلاق اور خلع کو ایک ناکامی سمجھنے کے بجائے اسے ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے، لیکن بعض اوقات یہ زندگی میں بہتری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ جو لوگ طلاق کے بعد خود کو سنبھالتے ہیں، وہ ایک نئی اور بہتر زندگی گزارنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ افراد خود کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں، تعلیم اور کیریئر پر توجہ دیں، اور جذباتی بحالی کے لیے ماہرینِ نفسیات یا قریبی افراد سے مدد حاصل کریں۔ والدین کو چاہیے کہ اگر علیحدگی ناگزیر ہو تو بچوں کی بھلائی کو اولین ترجیح دیں اور انہیں کسی بھی قسم کے جذباتی دباؤ سے بچائیں۔ مزید برآں، معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ طلاق یافتہ افراد کو کمتر سمجھنے کے بجائے انہیں عزت اور قبولیت دی جائے۔ شادی شدہ جوڑوں کو بھی یہ سیکھنا چاہیے کہ مسائل کو گفتگو اور برداشت کے ذریعے حل کریں تاکہ طلاق کی شرح کم ہو اور مستحکم خاندانی نظام کو فروغ دیا جا سکے۔
طلاق اور خلع کے حوالے سے مختلف مذاہب اور قوانین میں مخصوص اصول و ضوابط موجود ہیں۔ اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے لیکن بعض حالات میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ میاں بیوی ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ طلاق آخری حل کے طور پر اختیار کی جائے اور اس عمل میں انصاف، صبر اور عدل کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ طلاق کا صحیح اسلامی طریقہ تین طلاق ایک وقت میں دینے کے بجائے وقفے کے ساتھ دی جانے والی طلاق ہے تاکہ صلح کی گنجائش باقی رہے۔ اسی طرح، خلع کا حق عورت کو دیا گیا ہے تاکہ اگر وہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے سے مطمئن نہ ہو تو وہ اپنی مرضی سے علیحدگی اختیار کر سکے۔
قانونی اعتبار سے مختلف ممالک میں طلاق اور خلع کے قوانین مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ ممالک میں عورت کو خلع حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جب کہ کچھ جگہوں پر یہ عمل نسبتاً آسان ہے۔ بچوں کی سرپرستی، نان و نفقہ، اور جائیداد کی تقسیم جیسے معاملات بھی قانونی طور پر طے کیے جاتے ہیں تاکہ دونوں فریقین کے حقوق محفوظ رہیں۔ جدید قوانین میں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ خواتین کو طلاق کے بعد تحفظ فراہم کرنے کے لیے خصوصی شقیں شامل کی جا رہی ہیں تاکہ وہ معاشی اور سماجی طور پر کمزور نہ ہو جائیں۔
اگرچہ طلاق اور خلع بعض اوقات ناگزیر ہو جاتے ہیں، لیکن ازدواجی رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کو اس رشتے کی حقیقت، اس کی ذمہ داریوں اور چیلنجز سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ غیر حقیقی توقعات اور غیر ضروری دباؤ ازدواجی زندگی کو کمزور کر سکتے ہیں، اس لیے حقیقت پسندانہ سوچ اپنانا ضروری ہے۔ دوسرا، میاں بیوی کے درمیان کھل کر بات چیت اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا رجحان ہونا چاہیے تاکہ معمولی مسائل بڑے جھگڑوں میں تبدیل نہ ہوں۔ تیسرا، خاندان کے بڑوں اور دوستوں کو چاہیے کہ وہ مسائل کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں بجائے اس کے کہ وہ رشتے میں مزید دراڑ ڈالیں۔
طلاق اور خلع اگرچہ بعض اوقات ضروری ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے دانشمندانہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ ہر رشتہ قربانی، صبر، اور سمجھوتے سے چلتا ہے، اور اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت کریں اور اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کریں تو طلاق جیسے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر علیحدگی ناگزیر ہو جائے تو اسے ایک دوسرے کی عزت و وقار کو برقرار رکھتے ہوئے مکمل کرنا چاہیے تاکہ دونوں افراد ایک مثبت زندگی کی طرف بڑھ سکیں۔ ساتھ ہی، معاشرتی سطح پر ایسے رویے اپنانے کی ضرورت ہے جو طلاق یافتہ افراد کو سپورٹ کریں، انہیں کمتر نہ سمجھیں، اور انہیں دوبارہ زندگی شروع کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ مضبوط ازدواجی تعلقات اور مثبت سماجی رویے ہی وہ عوامل ہیں جو طلاق کی شرح کو کم کر سکتے ہیں اور خاندانی نظام کو مستحکم بنا سکتے ہیں۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)