منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
8.2 C
Srinagar

افسانہ: _____اندھی گلی

خوابوں کی روشنی
ریاض ایک محنتی نوجوان تھا، جو دن رات اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے خواب دیکھتا تھا۔ اس کاتعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، جہاں دن بھر محنت کی جاتی مگر زندگی کی بنیادی سہولتیںپھر بھی دور نظر آتی تھیں۔ وہ سوچتا تھا کہ ایک دن سب کچھ بدل جائے گا۔ریاض ایک چھوٹی سی نوکری کرتا تھا اور اپنے والدین کی خدمت میں لگا رہتا تھا۔ اس کے ارد گردکا ماحول روز بروز بگڑ رہا تھا—بے روزگاری، کرپشن، ناانصافی، اور بڑھتے ہوئے جرائم نے شہر کے امن کو دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا۔ وہ اکثر سوچتا، کیا واقعی ایمانداری سے زندگی گزاری جا سکتی ہے؟
اندھیرے کی چاپ
ایک دن اس کا قریبی دوست عامر اس کے پاس آیا اور کہا،ریاض، ایمانداری سے کچھ نہیں ملتا۔ اگر زندگی بدلنی ہے، تو تھوڑا خطرہ مول لینا پڑے گا۔ریاض حیران ہوا، کیا مطلب؟عامر نے رازدارانہ لہجے میں کہا، بس ایک کام ہے، بہت پیسہ ہے، کوئی نقصان نہیں۔ تمہیںصرف ایک بیگ ایک جگہ پہنچانا ہوگا۔ریاض پہلے تو ہچکچایا، مگر پھر اس نے سوچا کہ شاید ایک بار ایسا کر لینے سے اس کے مسائل حل ہو جائیں۔ وہ بہت تھک چکا تھا، اور اس کے خواب حقیقت بنتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
خطرے کی دستک
رات کے اندھیرے میں وہ ایک سنسان گلی میں پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں وہی بیگ تھا جو عامر نے اسے دیا تھا۔ جیسے ہی وہ مقررہ جگہ پر پہنچا، ایک گاڑی دھیرے سے اس کے قریب آ کر رکی۔دروازہ کھلا، اندر بیٹھے شخص نے ہاتھ بڑھایا، بیگ دو!ریاض نے کانپتے ہاتھوں سے بیگ تھمایا۔ اسی لمحے، سائرن کی آواز گونجی۔ پولیس نے چاروںطرف سے گلی کو گھیر لیا۔ہاتھ اوپر کرو!; ایک بھاری آواز گونجی۔ریاض کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی جملہ گونج رہا تھا: یہ میں نے کیا کردیا؟ریاض نے پلٹ کر دیکھا، عامر وہاں نہیں تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک خطرناک جال میں پھنس چکا ہے۔ بیگ میں نشہ آور اشیاءتھیں، اور وہ جانے انجانے میں ایک بڑے گینگ کا مہرہ بن چکا تھا۔پولیس نے اسے گرفتار کر لیا، اور اس کا خواب ہمیشہ کے لیے بکھر گیا۔ریاض کو جیل کی تاریک کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔ ہر گزرتا لمحہ اس کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔وہ ایک بے قصور لڑکا تھا جو صرف حالات کے جبر میں بہک گیا تھا۔ لیکن قانون کے نزدیک اسکی کوئی معافی نہیں تھی۔ ہر دن اسے اس فیصلے کے قریب لے جا رہا تھا جو اس کی زندگی کاآخری دن ثابت ہوگا۔
رات کا سناٹا اور موت کی چاپ
آج وہ دن تھا جب اسے تختہ دار پر چڑھایا جانا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو آخری بار ملنے کی درخواست کی تھی، لیکن شاید حکومت کے سخت قوانین نے یہ موقع بھی چھین لیا تھا۔ اس کے اندر ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے کوئی چیخ اس کے اندر گھٹ رہی ہو، جیسے وقت اس کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہا ہو۔جیل کے دروازے کھلے، چار سپاہی اس کی طرف بڑھے۔ ایک نے سرد لہجے میں کہا، تیار ہوجاو¿، وقت آ گیا ہے۔
پھانسی کا کمرہ اور آخری سوال
ریاض کو زنجیروں میں جکڑ کر تختہ دار کی طرف لے جایا گیا۔ سامنے ایک بلند چبوترہ تھا، جہاںموت اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہاں ایک جج، پولیس افسر، اور کچھ گواہ کھڑے تھے۔جج نے روایتی انداز میں پوچھا، آخری خواہش؟ریاض کی آنکھیں آنسوو¿ں سے بھر گئیں۔ اس نے کانپتی آواز میں کہا،اگر مجھے سچ بولنے دیا جائے، تو میں پورے ملک کو بتانا چاہتا ہوں کہ اصل مجرم وہ نہیں جویہاں کھڑا ہے، بلکہ وہ لوگ ہیں جو ہماری مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جو انصاف بیچتے ہیں،جو عامر جیسے لوگوں کو تحفظ دیتے ہیں!پھانسی کا رسہ اس کی گردن میں ڈالا گیا، اور ایک لمحے میں وہ ہوا میں جھول گیا۔ اس کی آخری چیخ تختہ دار کے اطراف گونجی، مگر اس چیخ کو سننے والا کوئی نہ تھا۔
انصاف کا خون
کچھ دن بعد ایک بڑی خبر سامنے آئی: عامر اور اس کے گروہ کو رہا کر دیا گیا تھا، کیونکہ وہ بااثر شخصیات کے لیے کام کرتے تھے۔ عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا، اور وہ دندناتے پھر رہے تھے۔ریاض کا خون رائیگاں چلا گیا۔ ایک بے قصور شخص انصاف کے نام پر قتل کر دیا گیا، اور حقیقی مجرم آزاد گھوم رہے تھے۔ریاض کی موت کے بعد گلیوں میں ایک سناٹا چھا گیا تھا۔ اس کے دوست، اہلِ محلہ اور چند صحافی اس کیس کو دوبارہ کھلوانا چاہتے تھے، مگر طاقتور ہاتھوں نے ہر دروازہ بند کر دیا تھا۔ عدالتیںخاموش تھیں، حکام بے حس تھے، اور میڈیا کو خرید لیا گیا تھا۔لیکن ایک شخص ایسا تھا جو یہ سب چپ چاپ برداشت نہیں کر سکتا تھا—ریاض کا چھوٹا بھائی،علی۔
بدلے کی آگ
علی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ انصاف کے اس جھوٹے نظام کو بے نقاب کر کے رہے گا۔ وہ ان فائلوں تک پہنچنا چاہتا تھا جن میں عامر اور اس کے گروہ کے کالے کرتوت درج تھے۔ لیکن اس کام کے لیے اسے بہت احتیاط برتنی تھی، کیونکہ ہر طرف مخبر اور عامر کے آدمی موجود تھے۔ ایک رات، علی خفیہ طور پر ایک وکیل سے ملا جو ریاض کے کیس میں سچائی جانتا تھا۔ وکیل نے سرگوشی میں کہا، عامر کو رہائی دلوانے کے لیے اوپر تک کھیل ہوا ہے، مگر کچھ ثبوت میرے پاس ہیں۔ اگر یہ سامنے آ گئے تو حکومت بھی بچ نہیں سکے گی۔
سچائی کا انکشاف
علی اور وکیل نے ایک منصوبہ بنایا۔ وہ تمام ثبوت خفیہ طور پر ایک بین الاقوامی تنظیم تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے، جس نے فوراً اسے میڈیا میں لیک کر دیا۔ خبروں میں بڑے بڑے انکشافات ہونے لگے:· عامر ایک منظم مافیا کا حصہ تھا، جو سیاستدانوں اور پولیس کو رشوت دے کر اپنے جرائم چھپاتا تھا۔ ریاض کو صرف اس لیے قربانی کا بکرا بنایا گیا کیونکہ اس نے ان کے خلاف گواہی دینے کی جرات کی تھی۔ عدالت کے کئی جج خریدے گئے تھے تاکہ عامر کے خلاف کوئی ثبوت قبول نہ کیا جائے۔یہ خبریں آگ کی طرح پھیل گئیں۔ عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی، ملک بھر میں احتجاج ہونے لگے۔
انتقام یا انصاف؟
عامر کو جب احساس ہوا کہ کھیل پلٹ چکا ہے، تو اس نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ مگر علی پہلے ہی اس کے ہر راستے کو بند کر چکا تھا۔ آخر کار، عامر ایک ویران گودام میں جا چھپا، جہاںعلی نے اس کا پیچھا کر لیا۔عامر نے خوفزدہ ہو کر التجا کی، دیکھو علی، جو ہوا اس میں میرا قصور نہیں، مجھے چھوڑدو!علی کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا، مگر اچانک اسے ریاض کے الفاظ یاد آئے:انصاف بدلے کا نام نہیں، سچائی کو سامنے لانے کا نام ہے۔علی نے عامر پر بندوق تان لی، مگر ٹریگر دبانے کے بجائے پولیس کو اطلاع دے دی۔ چند لمحوںمیں عامر کو گرفتار کر لیا گیا، اور اب عدالت کے پاس سچائی چھپانے کا کوئی بہانہ نہیں تھا۔
انصاف کا سورج طلوع ہوا؟
چند مہینوں بعد عامر اور اس کے تمام ساتھیوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔ ججوں اور کرپٹ افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوئی۔ علی اپنے بھائی کو واپس تو نہیں لا سکا، مگر اس نے ثابت کر دیا کہ اگر حوصلہ اور صبر ہو، توجھوٹ کے قلعے گرائے جا سکتے ہیں۔مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔کہیں نہ کہیں، کوئی نیا ریاض کسی اور طاقتور کے ظلم کا شکار ہونے والا تھا۔ یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی، جب تک ہر شخص سچائی کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)

 

Popular Categories

spot_imgspot_img