بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
14.5 C
Srinagar

راجوری کا چنگس قلعہ: سیاحت کے ساتھ روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے

آصف داؤد

منجاکوٹ،راجوری

راجوری، جموں و کشمیر کے حسین پہاڑوں میں چھپا ہوا ایک دلکش علاقہ ہے، جہاں کی خوبصورتی اور تاریخی ورثہ دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔ یہاں واقع چنگس قلعہ نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس خطے کی تہذیب و تمدن کی گہرائیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ایسے میں اسے اگر سیاحت کے نقشہ پرمضبوطی سے اجاگر کیا جائے تویہاں کے مقامی لوگوں کو بھی روزگار فراہم ہو سکتا ہے۔دراصل یہ قلعہ مغل دور کے شاندار فنِ تعمیر کی مثال ہے۔ اسے ایک بلند پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ہے، جہاں سے پورے علاقے کا دلکش نظارہ کیاجا سکتا ہے۔ جموں سے تقریباً 154 کلومیٹر اور راجوری سے 35 کلومیٹر دور چنگس گاؤں میں واقع یہ قلعہ ایک وقت میں مغلیہ سلطنت کے لیے اسٹریٹجک اور تاریخی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ چنگس قلعہ، جسے چنگس سرائے بھی کہا جاتا ہے، مغل دور کا ایک بھولا ہوا ورثہ ہے، جو آج بھی تاریخ کے شائقین اور سیاحت کی دنیا میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔ یہ قلعہ مغل بادشاہوں کے لیے کشمیر کے سفر کے دوران ایک عبوری پڑاؤ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔قلعہ کی تعمیر سترہویں صدی میں ہوئی تھی۔اس کی دیواریں مضبوط پتھروں سے بنی ہیں اور اس کے اندر موجود کمرے، گیلریاں اور راہداری اس وقت کے ماہر کاریگروں کی مہارت کا مظہر ہیں۔ چنگس قلعہ نہ صرف ایک فوجی چوکی کے طور پر استعمال ہوتا تھا بلکہ تجارتی قافلوں کی رہنمائی اور حفاظت کے لئے بھی اہم کردار ادا کرتا تھا۔

اس سلسلے میں 75سالہ مقامی بزرگ اقبال حسین اس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آج یہ قلعہ جو کبھی فخر کا نشان تھا، بربادی کی حالت میں ہے۔ اس کی گرتی ہوئی دیواریں اور نظرانداز شدہ حالت اس کی کھوئی ہوئی وراثت کی داستان بیاں کررہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ اس قلعہ کی تاریخ مغل دور سے جڑی ہوئی ہے، جب مغل بادشاہ کشمیر اور دہلی کے درمیان بار بار سفر کرتے تھے، تب یہ قلعہ ان کے لئے ایک اہم پڑاؤ کے طور پر کام آتا تھا۔ یہ قلعہ نالہ (نہر) کے کنارے واقع ہے، جو جموں اور پونچھ کو جوڑنے والے مرکزی قومی شاہراہ پر واقع ہے، یہاں سے گزرتی ہوئی قدیم مغل سڑک کے راستے پر مغل بادشاہوں اور ان کی افواج کے لیے چنگس ایک اہم پڑاؤ ہواکرتا تھا،خاص طور پر کشمیر کے سفر کے دوران، یہ قلعہ ایک ضروری راحت گاہ تھا۔ مغلیہ سلطنت کی حکمرانی میں کشمیر اور دہلی کے درمیان اس راستے کو انتہائی اہمیت حاصل تھی کیونکہ چنگس قلعہ ان بادشاہوں اور ان کے درباریوں کے لیے ایک عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔اقبال حسین بتاتے ہیں کہ ’چنگس‘ کا نام فارسی لفظ ’چنگن‘ سے آیا ہے، جس کا مطلب ’آنتیں‘ ہے۔

یہ پراسرار نام اس قلعے کی تاریخ کے ایک سیاہ باب سے منسلک ہے۔ 1627 ء؁میں مغل بادشاہ جہانگیر کشمیر سے دہلی سفر کرتے ہوئے وفات پا گئے تھے۔ تب ملکہ نے کہا کہ بادشاہ کی آنتیں اور دیگر اندرونی اعضا چنگس قلعہ میں دفن کیے جائیں، جبکہ ممی شدہ لاش کو ہاتھی پر رکھا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ وہ زندہ ہے اور جلوس دہلی کی طرف بڑھتا رہا۔ یہ دلچسپ کہانی اس قلعے کو مزید تاریخی اہمیت فراہم کرتی ہے اور اس علاقے کی مغل وراثت کا ایک اہم سنگ میل بناتی ہے۔بدقسمتی سے اس کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے باوجود، چنگس قلعہ اب تک مسلسل نظرانداز کیا گیا ہے۔ اب تو اس کی تعمیری حالت بھی زوال کا شکار ہورہی ہے۔ یہ قلعہ جو کبھی سرگرمیوں اور شاہی اہمیت کا مرکز تھا، اب ایک کھنڈر میں بدل چکا ہے۔قلعے کی بوسیدہ حالت قدرتی اثرات اور ہم سب کی بے توجہی کی وجہ سے ہے۔ دوسرے مغل دور کے یادگاروں کے برعکس، جنہیں باقاعدگی سے مرمت اور تحفظ کی کوششوں سے گزارا گیا ہے، چنگس قلعہ کو کسی قسم کی مرمت یا دیکھ بھال سے اب تک دور ہی رہاہے۔ اس کی بے توجہی اور عدم تحفظ کی وجہ سے قلعے کے اکثر حصے گر چکے ہیں اور اس کی پیچیدہ فنون کے بہت سے پہلو وقت کے ساتھ ختم ہو تے جارہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر اس قلعہ کی تزئین و آرائش کی جائے تو یقیناسیاحت کو فروغ ملے گا۔جو قلعہ کبھی مغلیہ سلطنت کے شاہی قافلے کا حصہ تھا، آج وہ بے توجہی کی وجہ سے اپنی عظمت کو کھو رہا ہے۔ مگر اس زوال کے باوجود، اس قلعے کے اندر وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اگر صحیح طریقے سے بحال کی جائیں، تو یہ ایک اہم سیاحتی مقام بن سکتا ہے۔جس سے نہ صرف قلعہ کی اہمیت کو بحال کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے گردونواح میں آباد لوگوں کے لئے ذریعہ معاش کو بھی بہتر بناسکتا ہے۔چنگس قلعہ کی موجودہ حالت میں اس کی بحالی کی ایک فوری ضرورت ہے۔ اس کے تاریخی، ثقافتی اور سیاحتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ قلعہ ایک قیمتی سیاحتی مقام بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقامی حکام اور سیاحت کے شعبے کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ چنگس قلعہ کی بحالی اور تحفظ کے لیے اقدام کریں۔چنگس قلعہ کے تحفظ کے ساتھ، علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔اس سلسلے میں مقامی صحافی بشارت حسین کہتے ہیں کہ اگر اس قلعے کی حالت کو بہتر بنایا جائے تو یہ مقامی لوگوں کے روزگار کابہت اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔وہ کھانے پینے سے لیکر مقامی سطح پر تیار کئے اپنے مصنوعات کے اسٹال بھی لگا سکتے ہیں۔ اس سے خواتین کو بھی روزگار حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ یہاں آنے والے سیاحوں کو مقامی طور پر تیار کردہ کھانے کی اشیاء فروخت کر سکتی ہیں۔ جس سے نہ صرف انہیں اچھی آمدنی ہو سکتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان کی تیارکردہ مصنوعات کو پہچان حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر سنگیتا شرما، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، آرکائیوز، آثار قدیمہ، اور عجائب گھر، جموں کا کہنا ہے ’ہم اس قلعے کی بحالی پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، اورہماری طرف سے بحالی کی اپیکس فائل جاری کی گئی ہے۔ ہمارے انجینئر اس کام کو جلد مکمل کر لیں گے۔ ہمیں یہ بھی یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہاں آنے والے سیاح اور اسکول پکنک کے مہمان صفائی کا خاص خیال رکھیں اور یہاں کسی قسم کا کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔‘ڈاکٹر سنگیتا کا یہ بیان بہت اہم ہے جسے تمام سیاحوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔بہرحال، آج یہ قلعہ خستہ حالی کا شکار ہے، لیکن اس کی باقیات ماضی کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ قلعے کی حفاظت اور بحالی کے لئے بہتراقدامات کی ضرورت ہے تاکہ یہ تاریخی ورثہ نہ صرف آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رہے بلکہ مقامی لوگوں بالخصوص خواتین کے لئے روزگار کا اہم ذریعہ بن سکے

Popular Categories

spot_imgspot_img