وادی کشمیر کے موسم سرما کا ایک منفرد اور تاریخی تسلسل ہے، جو تین مراحل میں تقسیم ہوتا ہے: چلہ کلان، چلہ خرد اور چلہ بچہ۔ ان میں سے چلہ کلان سب سے سخت اور طویل ہوتا ہے، جو چالیس دن پر محیط رہتا ہے، جبکہ چلہ خرد بیس اور چلہ بچہ دس دنوں تک جاری رہتا ہے۔چلہ کلان رخصت ہوچکا ہے اور چلہ خرد کے ایام جاری ہیں ۔عموماً ان ایام میں برف و باراں کا سلسلہ عام بات تھی، لیکن حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ رواں سال وادی میں بارش اور برفباری کا شدید فقدان دیکھنے کو ملا ہے، جس کی وجہ سے شدید سردی کے باوجود دھوپ میں گرمی کا احساس غالب آ رہا ہے۔ماہرین موسمیات اس غیر متوقع تبدیلی کو عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وادی میں موسم سرما اب سکڑ کر صرف چالیس دنوں تک محدود ہو گیا ہے اور برفباری کا دورانیہ بھی مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ماحول کے لیے بلکہ وادی کے آبی وسائل کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ دریائے جہلم اور دیگر آبی ذخائر میں پانی کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے، قدرتی چشمے خشک ہونے لگے ہیں اور زیرِ زمین پانی کی سطح بھی گر رہی ہے۔
اس موسمیاتی بحران کے اثرات مستقبل میں زرعی پیداوار، پینے کے پانی کی دستیابی اور ہائیڈرو پاور منصوبوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ حکومت اور ماحولیاتی اداروں کو اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ وادی میں موسمیاتی توازن کو بحال رکھا جا سکے۔ عوامی سطح پر بھی آگاہی اور ماحول دوست طرزِ زندگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک متوازن اور پائیدار ماحول یقینی بنا سکیں۔ماہرین کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں، جن میں بے تحاشہ کاربن کے اخراج، جنگلات کی کٹائی، اور غیر مستحکم صنعتی ترقی شامل ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر موسمیاتی توازن برقرار نہ رکھا گیا تو خطے میں خشک سالی، گرمی کی شدید لہریں، اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وادی کشمیر، جو اپنی جغرافیائی خصوصیات اور قدرتی حسن کے لیے مشہور ہے، موسمیاتی تبدیلی کے ان شدید اثرات سے براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔ کم برفباری کی وجہ سے نہ صرف سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ زراعت اور باغبانی جیسے اہم شعبے بھی دباو کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیب، زعفران اور دیگر زرعی پیداوار پر اس کا براہ راست اثر پڑ سکتا ہے، جو وادی کی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔اس صورتحال کا تدارک صرف حکومتی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ عوامی شعور اور عملی اقدامات بھی اتنے ہی ضروری ہیں۔ ہمیں شجرکاری مہمات کو فروغ دینا ہوگا، غیر ضروری ایندھن کے استعمال کو کم کرنا ہوگا، اور قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع اپنانے ہوں گے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے مقامی، قومی اور عالمی سطح پر تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وادی کشمیر اور دیگر متاثرہ علاقوں میں موسمیاتی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔





