بدھ, فروری ۱۲, ۲۰۲۵
11.7 C
Srinagar

مذہبی ہم آہنگی ۔۔۔۔۔۔

پوری دنیا میں مذہبی رواداری کا عالمی ہفتہ منایا جارہا ہے۔من اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ہفتہ برائے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے23 ستمبر 2010 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جسے اقوامِ متحدہ نے محض ایک ماہ بعد ہی20 اکتوبر 2010 کو متفقہ طور پر منظور کر لیا اور یوں عالمی سطح پر بین العقیدہ ہم آہنگی کی کوششوں کو فروغ ملنے لگا۔اس تجویز کا مقصد درست دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے مذہب کا نہ صرف احترام کرنا چا ہیے بلکہ ایک دوسرے سے ملک کر برادری،اخوت اور پیار محبت سے رہنا چا ہیے اور ایک دوسرے سے ملکر ہر قسم کی ترقی کے لئے مل جُل کر کام کرنا چا ہیے۔عالمی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے یکم تا7 فروری تک سالانہ سات دن خصوصی طور پر مقرر کیے گئے ہیں جن کا مقصد معاشرے میں بڑھتی مذہبی عدم مساوات، عدم رواداری، عدم برداشت، تشدد، نفرت اور تعصبات کا خاتمہ کرنا اور قبولیت، محبت، ہم آہنگی کی ثقافت اور باہمی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا ہے۔اتاریخی طور پر دنیا بھر کے مذہبی رہنما پہلی بار1893 میں شکاگو میں ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجنز میں شریک ہوئے جسے آج کے کارکنان مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد اور آغاز قرار دیتے ہیں۔بین المذاہب ہفتہ کا مقصد ہر سطح پر بامعنی اور قابل قدر تعلقات کی ثقافت اور روایت کو مضبوط بنانا اور فروغ دینا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر سال اس ہفتہ کے لئے ایک موضوع بھی مقرر کرتی ہے۔چونکہ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو دنیا میں اگر کسی چیز پر زیادہ لڑائیاں ہو رہی ہیں ،وہ مذہب کے نام پر ہی ہورہی ہیں کیونکہ مذہب وہ ہتھیار ہے،جس کااستعمال آسانی کیا جاسکتا ہے،تاکہ انسان کو آپس میں لڑایا جائے۔سنجیدگی سے دیکھا جائے تو دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ، ان کے بانیوں نے اپنے اپنے لوگوں کو انسانت کی فلاح و بہبود اور ایک دوسرے کی مدد و حمایت کے لئے تیار کیا تھا تاکہ وہ انسان کی اصل حقیقت پہچان کراُس کا احترام کر سکے کیونکہ مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ایک انسان جو کہ حیوانِ ناطق مانا جاتا ہے، انسان بن گیا اور ان ہی تعلیمات کی بنا پر وہ روحانیت کی اصل منزل حاصل کر سکتا ہے اور کائنات کے اصل خالق و مالک پر یقین کر سکتا ہے۔جہاں تک پیغمبروں ،اوتاروں اور وقت کے بڑے بڑے مذہبی پیشواﺅں کا تعلق ہے، انہوں نے لوگوں کو صحیح تعلیمات دے کر اس بات کے لئے تیار کیا ہے کہ یہ دنیا کسی کی نہیں ہے ،نہ ہی کوئی انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں زندہ رہ سکتا ہے بلکہ ایک نہ ایک دن اُس کویہاں سے کوچ کر کے چلے جانا ہے۔قدرت نے انسان کو دو طرح کی تعلیمات دی ہیں، ایک یہ کہ وہ کائنات کے مالک اور اُن کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر یقین رکھ کر اُن کی تعلیمات کی پیروی کریں ،دوسری اہم بات وہ اپنے ارد گردہمسایوں ،دوستوں اور رشتہ داروں کی وقت وقت پر مدد کرے ،اُن کے ساتھ انصاف اور ہمدردی کا سلوک روا رکھے۔بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مذہب کے نام پر لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہو رہے ہیں ۔ایک دوسرے کی زمین جائیدادیں ہڑپ کی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہایا جاتا ہے۔جہاں مذہبی تعلیمات کا تعلق ہے ،کہیں سے بھی ان باتوں کی اجازت نہیں دی جاتی ہے بلکہ ہر مذہب کا یہی مانناہے ایک انسان دوسرے انسان کی یہ سوچ کر عزت و احترام کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی قیمتی مخلوق ہے جس کو اشرف المخلوقکا خطاب ملا ہے ،جو سب سے افضل ہے۔جہاں تک مذاہب کے ٹھیکیداروں کا تعلق ہے ،وہ جان بوجھ کر لوگوں کو اصل حقا ئق سے بے خبر رکھتے ہیں تاکہ ان کی روزی روٹی آرام سے چل سکے۔جہاںتک بھارت کا تعلق ہے، اس میں سب سے زیادہ مذاہب کے لوگ رہتے ہیں جن کا رہن سہن ،زبان و تہذب الگ الگ ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی اس ملک میں صدیوں سے ایک دوسرے کا ا حترام کیا جارہا ہے لیکن اب اس ملک میں بھی کچھ لوگ جان بوجھ کر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، اس طرح یہاں مذہبی منافرت پھیلانے کی طاق میں رہتے ہیں، اس ملک کے پال لیسیسازوں ،سیاستدانوں،ادیبوں ،شاعروں ،صحافیوں اور دیگر ذی حس لوگوں کو ایک دوسرے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر چلنے کی ترغیب دینی چا ہیے تاکہ پوری دنیا میں یہ پیغام پہنچ سکے کہ ہندوستان ایک سب سے بڑا مذہبی رواداری والا ملک ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img