وادی کشمیر میں ایک صدی کے بعد موسم سر ما نے اپنا رنگ دیا ۔رات کا درجہ حرارت جہاں گزشتہ دنوں منفی8.5ڈگری سیلسیس تک جا گرا ،وہیں بیشتر کشمیریوں نے اپنا بوریا بسترا باندھ کر گرمی پتھری کا رخ کرنا شروع کردیا ۔سردی نے اس سال ستم ایسا ڈھایا کہ نل جم گئے اور لوگوں کو پانی کی شدید عدم دستیابی کے سبب شدید ترین ذہنی کوفت کا سامنا ہے ۔سردی سے مقابلہ کرنے کے لئے روایتی تدابیر ہی اپنائے جارہے ہیں ،کیوں کہ بجلی کی نایابی نے ایک بحرانی صورتحال اختیار کی۔بجلی اور پانی کی عدم دستیابی اپنی جگہ ہے ،لوگوں کو اقتصادی بد حالی کا سامنا بھی ہے ۔مہنگائی کی وجہ سے ضروریات زندگی کی چیزیں لوگوں کی قوتِ خرید سے باہرہیں ۔
ایک رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں ہائیڈروپاﺅر کی پیدار 65فیصد گر چکی ہے ۔یہ مقامی سطح پر پیدا کی جانی والی پیداوار ہے ۔جموں وکشمیر میں مقامی سطح پر1140میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ،جو گر کر اس وقت 250میگا واٹ رہ چکی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں یہ گراوٹ جموں وکشمیر میں جاری طو یل ترین خشک سالی کی وجہ سے درج کی گئی ہے کیوں کہ ندی نالوں میں سطح آب کافی کم ہے ۔اس وجہ سے بجلی کی سنگین صورتحال وادی کشمیر میں دیکھنے کو ملی رہی ہے ۔ جموں کے مقابلے میں کشمیر میں بجلی سپلائی کی حالت انتہائی ابتر ہے ۔وادی کشمیر میں بجلی کٹوتی شیڈول ماہ ستمبر سے ہی لاگو ہوچکا ہے اور یہ شیڈول اب بے ترتیب طریقے سے جاری ہے ۔یعنی اکیسویں صدی میں بھی وادی کشمیر میں ”آئی ۔۔گئی“ کا کھیل جاری ہے ۔ لوگوں نے اس بحران سے نمٹنے کے لئے اپنی اپنی سطح پر جدید طرز کے آلات نصب کئے ۔تاہم اب وہ(آلات) بھی کام کرنا چھوڑ چکے ہیں ۔
اس تمام صوتحال کے بیچ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جموں کا اسٹیشن چھوڑ کر کشمیر میں خیمہ زن ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیر میں شدید موسمی حالات کے سبب لوگوں کو پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کے سبب شدید ترین مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے وہ بذات خود صورتحال کا جائزہ لیں گے اور اسکے لئے کشمیر میں کم از کم ایک ہفتے کے لئے قیام کریں گے ۔وزیر اعلیٰ کی اس نیک نیتی پر کوئی شک نہیں ۔لیکن جناب آپ کی ہدایات زمینی سطح پر لاگو نہیں ہورہی ہیں ۔اس وجہ سے یہ عام تاثر پیدا ہوچکا ہے کہ عوامی حکومت کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ۔بلکہ ساری طاقت نئی دہلی اور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہے ۔ہم توبس اتنا ہی بتانا چاہتے ہیں کہ طاقت چاہیے ،عوامی حکومت کے پاس ہو یا پھر براہ راست مرکزکے پاس ہو۔اب عام لوگوں کو راحت ملنی چاہیے ۔ضروریات زندگی کی چزیں میسر رکھی جائیں اور بجلی کی سپلائی کو بہتر سے بہتر بنایا جائے ۔اگرچہ ہم واقف ہے کہ حکومت کو بھی طرح طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ،تاہم حکومت کے پاس عوام کی طاقت ہے ،جسے برقرار رکھنے کے لئے ہنگامی نوعیت کے فیصلہ جات کرنے ہوں گے اور عوام کو راحت پہنچا نی ہوگی ،بلے ہی کسی کی چھٹی کرنی پڑے۔