جمعرات, جنوری ۲۳, ۲۰۲۵
0.9 C
Srinagar

ایک سفر۔۔۔۔۔۔‎

تحریر ۔ ناصر منصور شاز ۔
اومپورہ ھونسگ کالونی بڈگام
ماضی میں میرا سفر پسنجر گاڑیوں میں ہوا کرتا تھا۔ یہی طریقہ تقریباً ایک تہائی آبادی کا تھا وہ بھی کیا دن تھے کہ گھر سے نکل کر بس اڈے تک چند میل پیدل سفر اور گاڑی کا انتظار اور ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک کا سفر خالی سفر ہوا نہیں کرتا تھا۔
بلکہ اخبار آزمائش امتحان اور مختلف تجربات کے ذریعے ذہنی ترقی کا سامان بھی مہیا ہوتا تھا۔ لیکن دور جدید نے وقت کی رفتار میں تیزی لاکر ان سب چیزوں سے غافل کردیا جب سے ہم آرام طلب ہوئیں۔ وہ دن بھی اب کہاں رہے ۔ راقم الحروف گھر کی بات کرے تو تین اسکوٹیاں اور دو عدد گاڑیاں خدمت میں کئی سالوں سے ہیں یہی روش میرے آس پاس کے پڑوس اور اطراف و اکناف میں ہے۔
ذاتی ٹرانسپورٹ کے استعمال سے اس وقت کئی بیماریوں کا سامنا ہیں ۔جس کسی کو بھی دیکھو کئی کئی بیماریوں نے گھیرا ہوا ہیں کولیسٹرول؛ پھیٹی لیور ۔ وزن کا بڑھنا ۔ یا کمر کی درد ۔ ان ساری بیماریوں کا جڈ ذاتی ٹرانسپورٹ کا کثرت استعمال میں لانے کی وجہ سے ہے۔ ان بیماریوں کی شرح دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ اور میں بھی بذات خود کمر درد کا شکار ہوچکا ہوں
 میرا کئی سالوں سے سفر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اسکوٹی پر ہی جاری وساری  ہے ۔۔
آج جمعہ المبارک کی صبح سویرے جب میں نے جمع نماز پڑھنے کا مائسمہ سرینگر میں اِرادہ کیا تو اسکوٹی کی کنجی اٹھانے کے بعد اسکوٹی کا لازمی حصہ ہیلمٹ اچانک آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ہیلمٹ نہ ملنے پر اور
وقت کی قلت کی وجہ سے میں نے من بنایا کہ میں آج کا سفر پسنجر گاری میں ہی کروں۔ کیونکہ ہیلمٹ کے بغیر اسکوٹی پر سفر کرنا ایک تو اپنی جان کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے اور خلاف قانون بھی ۔ کئی دنوں سے تو لوگ ٹریفک رولز کے پابند بنیں ہوئیں ہیں ٹینگ پورہ بائی پاس ہائے وے پر جب سے تھار گاڑی کا بھیانک اکسیڈنٹ کا حادثہ پیش آیا جس میں کئی نوجوان جو عروج شباب پر تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے لحد کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سو گئے ۔ اسی لیئے محکمہ ٹریفک پولیس جاگ چکی ہے ۔ اور اس بات کی تحریک پاچکے ہے کہ وہ سختی سے قانون کی پاسداری کریں گے۔
کشمیر کے چاروں اطراف ٹریفک پولیس کی گہما گہمی کا ماحول بنا ہوا ہے جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے ناقہ بندی لگا کر خلاف قانون کرنے پر  موقع پر ہی گاڑیوں کے پہیوں کو آگے سے اٹھا کر زنجیر زنداں میں کس کر پولیس احاطہ میں لے جاکر محصور کئیے جاتے ہیں ۔۔
اور یہی معاملہ اسکوٹیوں کے ساتھ بھی ہیں کہ لائیسنس کی عدم موجودگی میں بیشمار اسکوٹیاں سئیز کی گئیں۔ آج محکمہ دکھا رہا ہے لو جی دیکھیں بنا لائیسنس کی شرح کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے اصل میں یہ اپنی نااہلی کا ثبوت دے رہے ہیں۔تیس سال سے ہنوز ایک آٹو ڈرائیور بنا لائیسنس آٹو چلا رہا تھا کو سوشل میڈیا پر دکھا کر آٹو ڈرائیور کے لیے مضحکہ خیز تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ  محکمہ کی عدم قابلیت اور نااہلیت کا ہی ثبوت ہے کہ ایک آٹو ڈرائیور سالوں سال کیسے بنا لائیسنس آٹو چلا رہا تھا کیا وہ ان تیس سالوں میں تیس دفعہ بھی نہیں پکڑا گیا ۔ محکمہ کو لوگوں کی لیت و لعل تو دکھائی دے رہی ہیں لیکن تیس سال کا کرپشن دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ بہر کیف محکمہ ٹریفک کنٹرول کی یہ ایک اچھی پہل ہے کہ عوام الناس کو خلاف قانون سے روکے اس سے عوام میں سنجیدگی پیدا ہوگی بشرطیکہ اگر محکمہ بھی اس معاملے میں سنجیدہ ہوں ۔
اگر مستقبل میں محکمہ کی جانب  پھر سے وہی لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا تو آئیندہ اس سے بھی بڑھکر اللہ بچائیں حادثات کا گھناؤنا کھیل کھیلنے کو ملیں گیں۔
لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک با شعور قوم بنے اور اپنے اندر سنجیدگی اور برد باری پیدا کریں۔
احقر نے بھی ہیلمٹ نہ ملنے پر آخر کار اپنا سفر گورنمنٹ کی اسمارٹ بس میں کیا اسمارٹ بس میں یہ میرا تقریباً چوتھی بار کا سفر تھا۔ بس میں چڑھتے ہی میری نظر ایک خالی نشست پر پڑی جو بس کے عقب میں تھی ۔
 الیکٹرک بس کے اندر نشستوں کی بیچ کی راہ کشادہ رکھی گئی ہے ۔ بغل میں بیٹھے ایک صاحب سے میں نے راہ کی کشادگی کے حوالے بات کی تو انہوں نے کہا ابھی ابھی چڑھے ہو آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا ۔
چند ہی دقائق کے بعد اگلے اسٹاپ پر سواریوں کی ایک بھیڑ کی لمبی قطار  بس میں امنڈ آئیں۔                      اس سے میری نظر میں سمارٹ بس کی اہمیت کچہ گھٹ گئی۔ میری نظر دائیں کھڑے ایک سن رسیدہ بزرگ پر پڑی جو ہچکولے کھارا تھا ۔ کمبخت ضمیر کچھ لمحے نظریں چرانے لگا۔ لیکن آخر ضمیر جاگ گیا بزرگ کو نشست پر بٹھادیا ۔ میں بس کے اندر اسمارٹ چیزوں کو دیکھنے لگا تو میری نظر بس میں لگائے گئے سی سی کیمروں پر پڑی جن کے نیچے لکھا ہوا تھا . آپ نگرانی کے تحت ہیں ۔ اس سے دل خوش ہوا کہ اتنا تو ہے کہ خواتین کی حفاظت اور چور لفنگ اور اوباشوں سے تو نجات ملے ۔ ساتھ ہی میری نظر کھڑکیوں پر پڑی تقریباً سارے شیشوں کے لاک لٹکے ہوے تھے معلوم ہوا یہ سب بے شعور پسینجرز کی کارستانی ہے ۔ چند سال پہلے میرا سفر ٹرین میں سرینگر سے بانہال تک ہوا یہاں بھی یہی بے شعوری نظر سے گزری کئی شیشے اور الیکٹرک سوئچ بورڈ توڑے گئے تھے اور اتنی گندگی اور کچرا ڈالا گیا تھا کے اللہ ہی حافظ ۔ اس سے درشاتا ہے کہ قوم کے اندر شعور اور اخلاقی میں بیحد فقدان ہے۔ ہمارے معاشرے میں اصلاح کے بجائے عوامی صورتحال فساد اور بگاڑ کی اور جارہی ہے اس کا سدباب پر ہمارے مصلحین کو غور وخوض کرنا چاہیے نہیں تو بات دور تلک جائے گی ۔ دوبارہ نشست پر بیٹھنے کے بعد میری نظر ایک عورت پر پڑی جو اوور لوڈ میں کھڑی تھیں ۔ بس میں آگے کی پانچ چھے سیٹیں مخصوص عورتوں کے لیے رکھیں گئیں ہیں۔ اور باقی مردوں کے لیے لیکن یہ عورتوں کے ساتھ سراسر بے انصافی ہے۔ کیوںکہ یہ نوے کی دھائی کا رول ہے اس وقت کے زمانے میں خواتین کا سفر گاڑیوں میں کم ہوا کرتا تھا اور نا کے برابر ہوتا تھا اس کے کئی وجوہات تھے۔ مثال کے طور پر خواتین اکثر و بیشتر خود کفیل نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ اس کے مقابلے میں آج عورتیں اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں اور سرکاری غیر سرکاری دفاتر میں ملازمت کرتیں ہیں ۔ اس حساب سے دو ہزار چوبیس میں عورتوں کی نشستیں مردوں کے مقابلے میں آدھی ہونی چاہئیں تھیں۔ عورت کو کھڑے دیکھ کر میں اپنی نشست سے اٹھا اور تقریباً آٹھ کیلو میٹر آخری مقام تک استادہ رہا۔۔۔۔۔۔

Popular Categories

spot_imgspot_img