متنازع صدارتی آرڈیننس کی منسوخی کے لیے شہری تنظیموں کے اتحاد کی کال پر مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نے جمعرات کو پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کو مفلوج کر دیا جس کے باعث جزوی ردعمل کی توقع کرنے والی حکومت کو دھچکا لگا ہے۔
پاکستانی ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) کی جانب سے جمعے کو بھی ہڑتال جاری رکھنے کے اعلان کے بعد حکومت نے مذاکرات کی نئی پیش کش کردی۔
مقامی وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید نے کہا ہے کہ’صدارتی آرڈیننس کو (عدالت کی جانب سے) معطل کر دیا گیا ہے، آئیے ہم سب مل کر طویل اور قلیل مدتی مسائل کے جدید حل تلاش کریں’۔
قبل ازیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر نے متنبہ کیا تھا کہ اگر حکومت نے جمعے کی دوپہر 12 بجے تک قیدیوں کو رہا اور آرڈیننس کو منسوخ نہ کیا تو وہ ریاست بھر سے مظفر آباد تک لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی زیر انتطام جموں وکشمیر بھر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ہڑتال کی کال پر عوام نے غیر معمولی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیرگردش ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بازار بند سڑکیں ویران ہیں، اگرچہ کچھ علاقوں میں موٹر سائیکلیں اور کچھ نجی گاڑیاں دیکھی گئیں ، لیکن مظاہرین نے ان کی نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ، جو پچھلے مظاہروں سے ایک تبدیلی کی علامت ہے۔
کئی مقامات پر مظاہرین نے پتھروں، ملبے اور جلتے ہوئے ٹائروں سے سڑکیں بند کردیں، تاہم پولیس نے بڑے پیمانے پر تصادم سے گریز کیا، صرف ضلع باغ کے گاؤں کوتھرا گاؤں میں مختصر جھڑپیں ہوئیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس کو پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
ہڑتال کی کال پر خطے بھر میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں شرکا نے جموں و کشمیر کا قومی پرچم لہرایا اور آرڈیننس کے خلاف نعرے لگائے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ مظاہروں میں خواتین نے بھی شرکت کی۔
احتجاج کے مرکز مظفر آباد میں میڈیکل اسٹورز اور گلیوں میں لگنے والے پتھاروں سمیت تمام کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں، حتیٰ کہ حکومت کے حامی تاجروں نے بھی وعدے کے برخلاف اپنی دکانیں بند رکھیں، بینکس اور کچھ تعلیمی ادارے قلیل حاضری کے ساتھ کھلے رہے۔
تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے معمول کے مطابق امتحانات لیے تاہم ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث کچھ طلبہ امتحانی مراکز نہیں پہنچ سکے۔