اتوار, جنوری ۱۹, ۲۰۲۵
9.6 C
Srinagar

علی محمد ڈار: جدید تقاضوں سے کانگڑیاں بنانے کے فن کو ہم آہنگ کرنے والا کاریگر

سری نگر:  وادی کشمیر میں موسم سرما کے دوران صدیوں سے استعمال کی جانی والی روایتی کانگڑی لوگوں کے لئے گرمی کرنے کا موثر آلہ ہی نہیں بلکہ گھروں کی آرائش و زیبائش کا بھی ایک بہترین سامان بن گئی ہے۔
وادی کشمیر کے کاریگروں نے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ کانگڑیاں بنانے کے اپنے فن کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں اب کانگڑیوں کو گرمی کے لئے استعمال کئے جانے والے آلات تک محدود رکھنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اب وہ مختلف ڈیزائنوں کی کانگڑیاں بنا رہے ہیں جنہیں لوگ شوق سے خرید کر اپنے گھروں کی زینت بڑھا رہے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں گرمی کے لئے مختلف قسموں کے الیکٹرانک یا گیس پر چلنے والے آلات کی دستابی کے باجود کانگڑی کا استعمال ہر گھر میں کیا جاتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی یہ اطراف و اکناف کے بازاروں میں نمودار ہوجاتی ہیں۔
وسطی کشمیر کے چرار شریف سے تعلق رکھنے والے علی محمد ڈار نامی ایک کاریگر نے چار ایسی کانگڑیاں تیار کی ہیں جو نہ صرف انتہائی دلکش ہیں بلکہ اپنی نوعیت کی پہلی تخلیقات ہیں۔
ان کانگڑیوں کو دیکھ کر جہاں کاریگر کے اس فن سے دلچسپی کا اندازہ لگایاجاتا ہے وہیں روز گار کے لئے اس صنعت کی وسعت بھی سامنے آجاتی ہے۔
موصوف کاریگر نے یو این آئی کو بتایا: ‘میں نے اس سال چار مختلف کانگڑیاں تیار کی ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی کانگڑیاں ہیں اس سائز اور اس ڈیزائن کی کانگڑیاں وادی میں پہلی بار بنائی گئی ہیں’۔
انہوں نے کہا: ‘ان کو میں نے سردی سے بچنے کے لئے استعمال کرنے کے لئے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ گھروں میں آرائش و زیبائش کے لئے رکھی جا سکتی ہیں’۔
ان کا کہنا ہے: ‘ان سے جو سب سے بڑی کانگڑی ہے اس کو تیار کرنے میں مجھے 20 دن لگ گئے، اس سے جو چھوٹی ہے اس کو 10 دنوں میں تیار کیا اور جو اس سے دو چھوٹی کانگڑیاں ہیں ان کو بنانے میں 8 اور 2 دن لگ گئے’۔
ان کانگڑیوں کی ریٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر علی محمد نے کہا: ‘یہ کانگڑیاں اس فن سے وابستہ میرے شوق کا نتیجہ ہے ان کو تیار کرنے کے لئے میں نے اپنے تمام تر صلاحیتوں اور تجربے کو بروئے کار لایا ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘میں نے ان کانگڑیوں کی کوئی مخصوص قیمت نہیں رکھی ہے خریدار ان کو دیکھ کر خود جو چاہئے مجھے دے گا’۔
ان کا کہنا تھا: ‘نئے نئے ڈیزائن کی کانگڑیاں تیار کرنا میرا ایسا ہی شوق ہے جیسا ایک طالب علم کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے جس طرح ایک مصور بہتر سے بہتر تصویر بنانے پر محنت کرتا ہے اسی طرح میں بھی بہتر سے بہتر ڈیزائن کی کانگڑیاں بنانے پر بھر پور محنت کرتا ہوں’۔
موصوف کاریگر کا ماننا ہے کہ یہ صنعت دور حاضر میں دستیاب جدید ترین آلات کی دستیابی کے باوجود بھی روز گار کا ایک موثر وسیلہ بن سکتی ہے اور ہزاروں لوگوں کو ایک اچھا روزگار فراہم کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا: ‘میں گذشتہ 50 برسوں سے اس کاریگری سے وابستہ ہوں، بچپن سے اس کام سے جڑا ہوا ہوں اور میں نے یہ کاریگری اپنے علاقے کے بڑے کاریگروں سے سیکھی ہے’۔
ان کا کہنا ہے: ‘میری کوئی زرعی زمین ہے نہ آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے اسی فن کے ساتھ میری روزی روٹی وابستہ ہے اور میں آسانی سے اپنے گھر کے اخراجات پورا کرتا ہوں’۔
علی محمد کا کہنا ہے: ‘میں اپنے گھر میں اکیلے یہ کام کرتا ہوں اور سال بھر اس کام سے وابستہ رہتا ہوں اور اچھی طرح سے اپنے عیال کو پالتا ہوں’۔
انہوں نے کہا: ‘یہ ایک اچھی صنعت ہے اس میں روز گار حاصل کرنے کی کافی گنجائش موجود ہے اور یہ ہزاروں لوگوں کے لئے ایک موثر روز گار کا ذریعہ بن سکتی ہے’۔
ان کا کہنا ہے: ‘لوگ آج بھی مختلف قسموں کی کانگڑیاں خریدتے ہیں، ہر گھر میں کانگڑیاں پائی جاتی ہیں اور ہر گھر ہر سال کانگڑیاں خریدتا ہے’۔
موصوف کاریگر نے کہا: ‘تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کاریگروں کی تعداد کم ہو رہی ہے، نئے لوگ اس کو نہیں سیکھ رہے ہیں جو ایک تشویش ناک امر ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘اگر حکومت اس کی طرف توجہ دے گی، اس کے لئے نئی اسکیمیں متعارف کرے گی اور باقاعدہ کارخانے قائم کرے گی تو اس کا تحفظ یقینی بن سکتا ہے’۔

Popular Categories

spot_imgspot_img