پیر, جون ۳۰, ۲۰۲۵
30.2 C
Srinagar

نوکر شاہی کی بادشاہی: وی آئی پی کلچر اور بے بس عوام

تحریر: شوکت ساحل
اتوار، 29جون 2025 کی تاریخ تھی، سرینگر کی ایک اداس سی سہ پہر، میں راجباغ کی سڑک پر پہنچا تو اچانک ایسا لگا جیسے وقت منجمد ہوگیا ہو۔ کاروں کی قطاریں، موٹر سائیکل سواروں کی بے بسی اور پیدل چلنے والوں کی آنکھوں میں جمی حیرت،یہ سب کچھ کسی آمر کی آمد کا منظر پیش کر رہا تھا۔

کئی کلومیٹر تک بند سڑک، خاموش گاڑیاں اور بے بس عوام۔ معلوم ہوا کہ کوئی ’وی آئی پی‘ گزرنے والا ہے۔یہ وہی سڑک تھی جو عوام کے پیسوں سے بنی تھی۔ وہی سڑک جو جہلم کے کنارے بہتی ہے، لیکن آج اس پر عوام کو گزرنے کی اجازت نہیں۔ جمہوریت کے اس عظیم الشان قلعے میں عوام کو عوامی سڑک پر چلنے کا حق نہیں، کیونکہ ’کوئی خاص‘آ رہا ہے!ایک پولیس اہلکار، جو خود تنخواہ عوام کے ٹیکس سے لیتا ہے، عوام ہی کو قانون پڑھا رہا تھا۔

دو پہیہ والوں کو ایک طرف لگایا جا رہا تھا، گاڑیوں کو گھمایا جا رہا تھا اور ایک نوجوان کی پولیس اہلکار سے نوک جھونک پر اسے قانون کی تصویر دکھا کر ڈرایا جا رہا تھا۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ قانون آخر کس کے لیے ہے؟ وہ جو سرکار میں ہے، وہ تو2014 میں اعلان کر چکا تھا:’میں وزیر اعظم نہیں، خادم اعظم ہوں۔‘ تو پھر خادم کے گزرنے پر آقا ﺅں کا قافیہ کیوں بند کیا جا رہا ہے؟ اگر خادموں کو پروٹوکول چاہیے، تو پھر ہمیں بھی آئین کے صفحے پر سے جمہوریت کا لفظ کاٹ دینا چاہیے۔

ہمیں یاد ہے، یہی وزرائے اعلیٰ جب ووٹ مانگنے آئے تھے تو عوام کے سامنے جھکے تھے، ٹوپی اتاری تھی، منتیں کی تھیں۔ کہا تھا،’آپ کی عزت میرے سر پر، میں خادم ہوں۔‘ ،پھر اقتدار میں جناب آئے اور اعلان کیا میرے آنے اور جانے کے دوران راستے بند نہیں ہوچاہیے ،تو پھر سیکیورٹی کی یہ ’فوج ظفر موج ‘کس لیے؟ اور یہ عوام کی نقل و حرکت پر پہرہ کیوں؟اسی جام کے دوران ایک اور تماشا ہوا۔ ایک معزز ایم ایل اے صاحب سائرن بجاتے، گاڑی دوڑاتے، قانون کی گردن مروڑتے نکلے۔

نہ کوئی خجالت، نہ کوئی سوال۔ حالانکہ وہ کوئی چیف جسٹس نہیں تھے، بس ایک رکنِ اسمبلی۔ عوام کے ووٹ سے اسمبلی میں بیٹھنے والا ایک شخص، عوام کے حقِ راہ کو روند کر نکل گیا۔سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز،سرکاروں کے بیانات، سب کتابوں میں دفن ہو چکے ہیں۔ جو وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی قسمیں کھائی گئی تھیں، وہ آج عوام کے گلے کا طوق بن چکی ہیں۔

حال ہی میں ایک منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا: وزیر اعظم کا قافلہ رکا، کیونکہ ایک ایمبولینس کو گزرنا تھا۔ قانون جیت گیا تھا، انسانیت کی جیت ہوئی تھی۔ لیکن سرینگر میں قانون، پولیس کی زبان سے صرف عوام کے لیے نکلتا ہے، عمل کے لیے نہیں۔آج ہر سائرن سن کر لگتا ہے جیسے جنگ چھڑ گئی ہو، جیسے کوئی فوج دشمن پر حملہ آور ہونے جا رہی ہو، لیکن اصل جنگ تو عوام اپنے جینے کے حق کے لیے لڑ رہی ہے ۔

خاموش، لاغر، اور بے سہاراہ۔کب تک سڑکیں عوام سے چھینی جاتی رہیں گی؟ کب تک پولیس وردی پہن کر جمہور کی راہوں میں کانٹے بچھاتی رہے گی؟ کب تک ہر سائرن عوام کے ماتھے پر تھپڑ بن کر گونجتا رہے گا؟اب وقت ہے، کہ ہم وی آئی پی کلچر کو دفنا دیں، اور جمہوریت کو زندہ کریں۔ورنہ خادموں کی یہ بادشاہی، ہمیں غلامی کے ایک نئے دور میں دھکیل دے گی ۔ جہاں عوام ووٹ دے کر خود پر قفل لگاتے ہیں، اور پھر ساری عمر سائرن کے شور میں اپنی بےبسی سنتے ہیں۔

[email protected]
Ph:9541454588

Popular Categories

spot_imgspot_img