منگل, جنوری ۲۱, ۲۰۲۵
9.9 C
Srinagar

اسلام میں برابری اور ذات پات کی تفریق کا خاتمہ: ایک بہتر معاشرت کی جانب‎

محمد عرفات وانی,کچھمولہ ترال پلوامہ کشمیر

ذات پات کا مسئلہ ہماری معاشرت میں ایک سنگین چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے، جو نہ صرف افراد کی ذاتی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں تفریق اور بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ اس مسئلے کی جڑیں ہماری ثقافت، تاریخ، اور خاندانی روایات میں پوشیدہ ہیں، لیکن اسلام ہمیں اس تفریق سے نجات حاصل کرنے اور برابری کی بنیاد پر زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔

ذات پات کا اثر اور کشمیر کی صورت حال کشمیر کی سرزمین پر مختلف ذاتوں کے افراد جیسے سید، پیر، شاہ، جیلانی، بخاری اور قریشی کو الگ الگ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ رواج اپنے آپ میں ثقافتی اور مذہبی اہمیت رکھتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرتا ہے، جو کہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ اس سے نہ صرف انسانیت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ خاندانی تنازعات اور سماجی فاصلے بھی پیدا کرتا ہے۔
اسلام میں برابری کی تعلیمات اسلام میں ذات پات کی تفریق کی قطیعتاً ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن و سنت میں انسانوں کی برابری پر بار بار زور دیا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے” (قرآن مجید، سورہ حجرات 49:13)
یہ آیت نہ صرف ذات پات کی تفریق کو مسترد کرتی ہے بلکہ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی اصل عزت اس کی تقویٰ اور عمل میں ہے، نہ کہ اس کے خاندان یا ذات میں۔
شادی کے انتخاب میں سیرت کی اہمیت شادی کے معاملے میں اکثر لوگ ذات، خاندان، یا مالی حیثیت کو ترجیح دیتے ہیں، مگر اسلام میں سب سے اہم چیز سیرت، اخلاق، اور تقویٰ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم عورتوں سے نکاح کرو تو ان سے نکاح اس صورت میں کیا جائے جب مرد ان کے لیے مناسب (کفو) ہوں” (صحیح مسلم)۔ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح میں ہم آہنگی، اخلاقی اور ذہنی مطابقت کی اہمیت ہے، نہ کہ کسی فرد کی ذات یا خاندان۔
معاشرتی دباؤ اور معیشتی حالات کبھی کبھار افراد معاشرتی دباؤ یا معیشتی حالات کی بنا پر رشتہ کے انتخاب میں وہ فیصلے کرتے ہیں جو ان کی ذاتی خواہشات کے برعکس ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام میں کسی بھی صورت میں ذات پات یا قبیلے کو اہمیت دینا ممنوع ہے۔ ہمیں اپنے فیصلوں میں اللہ کی رضا اور اسلامی تعلیمات کو مقدم رکھنا چاہیے۔
نتیجہ: ایک بہتر معاشرے کی تشکیل اسلامی تعلیمات کے مطابق ذات پات کی تفریق ایک غلط فہمی ہے جو ہمارے معاشرتی تعلقات میں دراڑ ڈالتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں میں برابری، انصاف اور انسانیت کے اصولوں کو اپنائیں، تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ پورے معاشرے میں امن، محبت، اور ہم آہنگی بھی فروغ پائے گی۔ ہمیں ذات پات کے بجائے سیرت، اخلاق اور تقویٰ پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
خلاصہ: ذات پات کی تفریق اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہ ہماری معاشرت میں تفریق کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں برابری، سیرت اور اخلاق کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ ہم ایک مضبوط اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل کی جانب قدم بڑھا سکیں۔
مصنف و کالم نگار:محمد عرفات وانی,کچھمولہ ترال پلوامہ کشمیر

Popular Categories

spot_imgspot_img