دنیا بھر میں عالمی یوم اُردونہایت ہی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا اور اس حوالے سے ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ان تقریبات میں اُردو زبان سے وابستہ افراد اور تنظیموں نے اُردو زبان کو در پیش مسائل ومشکلات پر بات کی اور ان کے سدباب سے متعلق سرکار اور انتظایہ کو مفید مشوروں سے آگا کیا اور اُمید ظاہر کی ملک میں اس زبان کے فروغ اور ترویج کے لئے ارباب اقتدار منصوبے تیار کر کے ان پر عمل کریں گے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ برصغیر میںکروڑوں لوگ اپنی اپنی مادری زبان بولنے کے باوجود اُردو پر بہت زیادہ انحصار رکھتے ہیں اور یہ زبان آسانی کے ساتھ بہت سارے لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔جہاں تک ہمارے ملک ہندوستان کا تعلق ہے، اس میں بہت ساری تنظیمیں اور انجمنیں اس زبان کو زندہ رکھنے اور اس کے فروغ کے لئے کام کرتی ہیں ،ملک میں اوردو کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جو نہ صرف اُردو میں کتابیں ،رسالے شا ئع کر تا ہے، بلکہ ملک میں اُردو زبان میں شایع ہو رہے، اخبارات کے لئے مضامین ،فیچر ،افسانے ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں کتاب میلوں کا انعقاد بھی کر تا ہے، تاکہ اس زبان کو فروغ مل سکے۔
گزشتہ ایام کے دوران اس طرح کا ایک کتاب میلہ وادی میں بھی منعقد ہوا تھا جس میں ملک کے مختلف اشاعتی اور نشریاتی اداروں نے شرکت کی اور اپنے اسٹال لگائے تھے۔پہلے ایام میں یہ قومی ادارہ ملک میں شائع ہو رہے اُردو اخبارات کو یو این آئی اُردو سروس کے ماہانہ فیس میںسے نصف حصہ بطور امداد فراہم کرتا تھا لیکن اچانک ا س اسکیم کو بند کیا گیا۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انگریزی زبان ایک عالمی زبان ہے جس کو دنیا کے کسی بھی کونے میں بہ آسانی سمجھا جاتا ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اُردو زبان کو ختم کریں۔ملک میں اُردو زبان بولنے والے لوگوں کے ذہن میں یہ بات گر کرگئی ہے کہ یہ زبان بولنے سے وہ کمزور ثابت ہونگے، ایسے لوگ احساس کمتری کے شکار ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ وہ بہتر ڈھنگ سے انگریزی بُول نہیں پاتے ہیں ۔وادی میں بھی گزشتہ کئی برس قبل اُردو صحافت سے وابستہ چند صحافیوں نے انجمن اُردو صحافت جموں کشمیر کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل اس بنا پر ڈالی گئی تھی کہ وہ اس زبان کے فروغ کے لئے اپنی خدمات پیش کرے۔اس تنظیم نے بھی وقت وقت پر اُردوزبان اور اُردو صحافت کے فروغ کے حوالے سے سمینار ،سمپوزیم اور کانفرنسیں منعقد کیں لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ اس تنظیم کو سرکاری سطح پر کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی ہے ۔
بہرحال اُردو زبان کا جہاں تک تعلق ہے ،یہ ایک میٹھی زبان ہے، اس میں لطافت موجود ہے اس کو بولنے اور پڑھنے والے بہت سارے لوگ برصغیر میں موجود ہیں ۔جموں کشمیر میں بھی اُردو اخبارات کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کام کررہے ہیں ،مگر ان اخبارت کے پاس وسائل دستیاب نہیں ہیں کہ وہ ملک میں ہو رہی تیز تر ترقی میں شامل ہو سکے ۔ان اخبارات میں کام کر رہے پیشہ ور صافیوں کو کم قلیل اُجرت ملتی ہے، پھر بھی وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گذارتے ہیں ۔سرکار اور انتظامیہ کی یہ اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ان اشاعتی اداروں کی ہر سطح پر مدد کریں تاکہ یہ ادارے بھی باقی اداروں کی طرح زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرسکیں اور ملک کی تیز تر ترقی میں اپنا رول اداکر سکیں۔اسکولوں کالجوں ،دانشگاہوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں بھی اس زبان میں خط کتابت ہونی چا ہیے جیسے کہ محکمہ مال اور پولیس نے اس نظام کو رائج کیا ہے۔تب جاکر یہ زبان محفوظ رہ سکتی ہے اور اس سے جڑے افراد بھی خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں جو وقت کے حکمرانوں کا مدعا و مقصد ہے۔
