جموں کشمیر ( یوٹی ) قانون ساز اسمبلی کے مختصر اجلاس کو معزز ممبران نے تنازعے کی نذر کر دیا ہے ۔پہلے ہی روز ایک نو منتخب ممبر نے اسپیکر کے انتخاب پر مبارکبادی دینے کی بجائے دفعہ 370کی قرارداد ایون میں پیش کرنے کے بہانے ایوان کی کارروائی میں رخنہ ڈالا۔دوسرے دن نائب وزیر اعلیٰ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کے حوالے سے ایک قرار داد ایون میں پیش کی جس پر بی جے پی کے ممبران نے اعتراض کرتے ہوئے ایوان میں ہنگامہ کیا اور ایوان کی کارروائی کو ملتوی کرنا پڑا۔اگر سنجیدگیسے غور کیا جائے تو اس قرار داد میں کوئی ایسی بات درج نہیں تھی، جس سے یہ اخز کیا جاسکے کہ یہ ملک دشمنی پر مبنی ہے ۔
اس قرار داد میں مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں کشمیر کی عوامی سرکارکے ساتھ مذاکرات شروع کرے، تاکہ جموں و کشمیر کیتہذیب ،تمدن،ثقافت،زمین جائیداد ، نوکریوں اور آئین کے تحفظ کے حوالے سے ایک ٹھوس لائحہ عمل بنایا جاسکے ۔اس پر تنازعہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس اقدام سے جموں کشمیر اور مرکزکے درمیان بہتر تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔جہاں تک اسمبلی اجلاس کے چوتھے دن کا تعلق ہے ،یہ بھی ہنگامہ کی نظر ہوا۔ ایوان میں ایل جی کی تقریر پر شکریہ کی تحریک پیش کرنی تھی لیکن ابھی ایوان کی کارروائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اپوزیشن لیڈر کیساتھ ساتھ ایم ایل ائے لنگیٹ خورشیدشیخ نے ایک بینر ہوا میں لہرایا جس پر قرارداد کے حوالے سے چند حروف لکھے ہوئے تھے، جس کو پھاڑنے کے لئے بی جے پی کے ممبران ایوان ِ چاہ میں اُتر آئے اور اس طرح اسمبلی ایوان مچھلی بازار میں تبدیل ہوا۔ممبران نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑا اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی۔غرض جموں کشمیر کے لوگوں نے جن بنیادی مسائل کے حل کے لئے ان ممبران کو مینڈیٹ دیا تھا، یہ ممبران اس بات کو ہی بھول گئے ہیں ۔وہ صرف خبروں میں آنے کے لئے اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے نت نئے حربے آزما رہے ہیں جو سراسر غلط اور غیر ضروری ہے اور ناہی یہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ انصاف ہے۔
جہاں تک جموں کشمیر کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسائل و مشکلات جھیل رہے ہیں اور ان کے زخموں پر مرحم کرنے کی ضرورت ہے۔جموں و کشمیرمیں لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے ۔بجلی کی سپلائی دن رات متاثر رہتی ہے ۔دیہی علاقوں میں لوگ پانی ،بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے لئے تڑپ رہے ہیں اور انہیں نو منتخب سرکار سے کافی زیادہ اُمیدیں وابستہ ہیں کہ اُن کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا اور یہ خطہ بھی ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح تیز تر تعمیر و ترقی میں شامل ہوگا، لیکن بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ممبران اپنے ذاتی مفادات کیخاطر لڑتے جھگڑتے ہیں۔عمر عبدللہ کی سربراہی میں بنی سرکار کو موقعہ دینا چاہئے کہ وہ عوام کے مسائل ومشکلات حل کرنے میں اپنے منصوبے ترتیب دے اور ان منصوبوں کو عملانے کے لئے انتظامی سطح پر کام شروع کر نے کی ضرورت ہے۔ اس طرح عوام راحت و سکون کی سانس لے سکیں گے جو طرح طرح کے مسائل ومشکلات میں گرفتار ہیں۔