جموں وکشمیر میں تین مراحل پر محیط تاریخ ساز اسمبلی انتخابات کا ریکارڈ شرح ووٹنگ کیساتھ اختتام ہوا ۔18ستمبر،25ستمبر اور یکم اکتوبر 2024کو لاکھوں رائے دہندگان نے جمہوری عمل پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کا فیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں قید کیا ۔عوامی رائے کا یہ فیصلہ اب8اکتوبر کو سنایا جائے گا ۔عوام کی رائے کیا ہوگی اور کس کے حق میں ہوگی ؟،اس کا احترام نہ صرف لازمی ہے بلکہ عوامی فیصلہ ہی جمہوریت کی اصل روح ہے ۔گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران جموں وکشمیر کے عوام نے جمہوریت کاجشن منایا ۔انتخابی مہم کے دوران لوگ امیدواروں کے سنگ رقص کرتے ہوئے نظر آئے جبکہ اس دوران دلچسپ نعرے بھی لگائے گئے ۔سبھی سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور میں عوام کو راحتی پیکیج دینے کے دعوے اور دعوے کئے ۔علاقائی سیاسی جماعتوں نے روزگار ،بجلی فیس میں کمی ،تعمیر وترقی کیساتھ ساتھ 5اگست 2019کے فیصلہ جات کے تحت جموں وکشمیرکی نیم خود مختاری کو واپس لانے کا وعدہ بھی کیا ۔تاہم بعض علاقائی سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ بعض علاقائی سیاسی جماعتیں آسمان سے تارے توڑ نے کے کھوکھلے وعدے اور دعوے کررہی ہیں ۔جبکہ آسمان سے تارے توڑنے کی باتیں محض گمراہی ہے ۔کیوں کہ آج تک کسی نے آسمان سے تارے توڑ کر نہیں لائے ۔قومی سیاسی پارٹیوں نے عوام کو راحت دینے کا وعدہ کیا ۔
ایک دہائی کے بعد جموں وکشمیر کے عوام کو اپنی من پسند سرکار منتخب کرنے کا موقع ملا ،تو انہوں نے بھی اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔عوام نے جہاں جمہوریت کا جشن بڑھ چڑھ کر منایا ۔وہیں جموں وکشمیرکے سیاسی راہنماﺅں نے” زون ہو زون سے لیکر زِی±ون ہو زِی±ون ہو“ تک سفر بھی طے کیا ۔اب جہاں عوام کو یہ امیدیں ہیں ،کہ اُن کی منتخب سرکار اُن کے مسائل حل کرے گی اور اُن کے منتخب نمائندے اُن کی مشکلات ومصائب کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ کریں گے ۔وہیں سینکڑوں کی تعداد امیدوار جن میں سابق وزیر اعلیٰ ،کابینہ وزیر اور اہم سیاسی شخصیات شا مل ہیں ،کو یہ امیدیں ہیں کہ 8اکتوبر کو سنایا جانے والاعوامی فیصلہ اُن کے حق میں ہی ہوگا ۔90نشستوں پر ہوئے اسمبلی انتخابات میں قریب قریب ایک ہزار امیدوار میدان میں ہیں ،جن میں سے صرف90امیدواروں کا انتخاب ہو گا اور جموں وکشمیرمیں اس طرح نئی سرکار تشکیل پائے گی ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا جموں وکشمیر کی نئی تشکیل پانے والی سرکار عوامی توقعات پر کھرا اترے گی یا نہیں ؟یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا ۔کیوں کہ جموں وکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ انتخابات یوٹی سطح پر منعقد ہوئے اور تشکیل پانے والی نئی سرکار بھی یوٹی سرکار ہی کہلا ئے گی ۔وزیر اعلیٰ کے پاس اختیارات ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔کیوں کہ مرکز نے جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گور نر کو لا محدود اختیارات سے نوازا ہے ۔ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ اور لیفٹیننٹ گو رنر کیا ایک صفحے پر رہیں گے ؟یا پھر سیاسی نوک جھونک آڑے آئے گی ۔بہرکیف مشورہ یہی رہے گا کہ عوامی رائے اور مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے عوامی مسائل ہی پر توجہ مرکوزرکھنے کی کوششیں کیجئے گا ۔کیوں کہ سیاست کے لئے بہت وقت ہے ،لیکن عوامی مسائل حل کرنے کے لئے مزید انتظار نہیں کیا جاسکتا ۔عوام کو ہر سطح پر شدید مشکلات،مسائل اور مصائب درپیش ہیں ،جن کا ازالہ کرنا نئی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ایسے میں اختیارات سے لیس لیفٹیننٹ گو رنر کو بھی اپنا مثبت اور کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے ۔تاکہ عوام کا جمہوریت پر یقین اور اعتماد اور زیادہ مضبوط ہو ،جو 1987میں بکھر گیا تھا ۔