10سال بعد ہو رہے جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کا دوسرا مرحلہ قریب ہے ۔25ستمبر کو6اضلاع کی 26نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں جبکہ اس مرحلے کے لئے 239امیدوار میدان ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بھر پور طاقت لگا رہی ہیں اور ووٹران کو اپنی جانب راغب کرنے میں مصروف ہیں۔ایک بات طے ہے کہ جموں کشمیر میں اب عوامی سرکار بننے جارہی ہے اور اب عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں طاقت ہوگی اور وہ عوامی مسائل حل کرسکتے ہیں ۔سرکار کتنی مضبوطبننے گی یہ ایک علیحدہ سوال ہے کیونکہ ابھی تک جو عوامی رحجان سامنے آرہا ہے، اُس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں مل سکتی ہے۔
وادی میں جہاں آزاد اُمیدواروں کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوں گے اور معمولی مارجن سے اُمیدوار کامیاب ہوں گے یا ہار جا ئیں گے، وہیں جموں صوبے میں این سی اور پی ڈی پی اچھی کارکردگی نہیں کر پائے گی بلکہ یہاں دو قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی برا ہ راست مقابلہ نظر آرہا ہے ۔ ان حالات میں یہ بات طے ہے کہ جو بھی سرکار وجود میں آئے گی ،وہ دو یا تین جماعتوں پر مشتمل ہوگی کیونکہ ووٹوں کی تقسیم سے نتا ئج بالکل مختلف سامنے آنے کا قوی امکان ہے۔جہاں تک منتخب ہونے والی نئی سرکار کا تعلق ہے، اُس کے پاس بھی اتنی زیادہ اختیارات نہیں ہوں گےکیونکہ یوٹی میں ایل جی کے پاس ہی زیادہ اختیارت ر ہیں گے۔ لہٰذا کوئی بھی کام کرنے سے قبل ایل جی کی منظوری لازمی ہے۔
ان حالات میں عوامی مسائل کس قدر حل ہوں گے، سب بخوبی جانتے ہیں۔اب جب کہ عوام کے ووٹ سے عوامی سرکار وجود میں آنے والی ہے، اس کی سربراہی کون کرے گا؟ یہ بھی انتہائی اہم ہوگا۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ عوام کی چاہت تھی کہ جموں کشمیر میں انتخابات ہونے چا ہیے جس کے مدنظر مرکزی سرکار نے انتخابات کرانے کا فیصلہ بھی لیا اور لوگوں نے ووٹ ڈالکر ابھی تک اپنی دلچسپی کا اظہار بھی کیا، جو ایک اچھی اور صحت مند علامت مانی جاتی ہے کیونکہ جمہوری نظام میںعوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہے۔اب نئی سرکار میں منتخب ممبران کوعام لوگوں کے احساسات،جذبات اور مسائل کا خاص خیال رکھنا ہوگا اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں جی توڑ کر محنت کرنی چا ہیے اور تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کے لئے اپنا وقت صرف کرنا چا ہیے۔انتخابی دنگل میں جس طرح کے حالات و وقعات دیکھنے کو ملے ہیں، وہ انتہائی مایوس کُن تھے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور عہدیداران نہ صرف ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے تھے، بلکہ ذاتی حملے بھی کرتے نظر آرہے ہیں ۔ایک دوسرے پر فقرے کستے ہیں اور گالی گلوچ تک سُنے کو ملی جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے کیونکہ جو عوامی نمائندے لوگوں کی بہتری اور بھلائی کےلئے سیاسی میدان میں اُتر چکے ہیں، اُن میں اس طرح کی سوچ اور اپروچ نہیں ہونی چاہئے بلکہ اُن میں اخلاق اور تدبُر ہونا بے حد لازمی ہے کیونکہ کل کی تاریخ میںاُنہیں عام لوگوںکے مسائل ایک دوسرے سے مل کر حل کرنے ہیں ۔بہرحال انتخابات ختم ہونے کے بعد جو بھی سرکار وجود میں آتی ہے، اُس میں شامل لیڈران اور ممبران میںنفرت ،عداوت ،بغض اور سیاسی عناد ہرگز موجود نہیں رہنا چاہئے بلکہ بغیر کسی امتیازاور سیاسی عداوت کے انہیں ہر ایک کی بھلائی کےلئے کام کرنا چا ہیے، تاکہ یہ خطہ پھر سے جنت بن جائے جہاں فی الحال جہنم کی بُو سونگھنے کو مل رہی ہے۔