مشتاق احمد ملک منڈی،پونچھ
پہاڑی علاقوں میں گزشتہ کچھ ماہ قبل ہوئی شدید بارشوں سے کافی تباہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ان علاقوں میں مسلسل بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور پہاڑ گرنے کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کئی گھر تباہ ہو گئے، بہت سے لوگ بے گھر ہو گئے اور نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل بارش سے زمین میں نمی بڑھ جاتی ہے جس سے پہاڑی چٹانیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جب پانی کا زیادہ دباؤ ہوتا ہے تو مٹی اورپتھرنیچے کی طرف کھسکنے لگتے ہیں۔ یہ لینڈ سلائیڈنگ نہ صرف مکانات کو تباہ کرتی ہے بلکہ سڑکوں، بجلی اور پانی کی فراہمی جیسی بنیادی سہولیات کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔خطہ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی پنہایت لوہل بیلہ وارڈ نمبر دو اور پانچ کے کئی مکانات زمین بوس ہو گئے، پہاڑی گرنے والے علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پرمجبور ہو گئے تھے۔ بہت سے لوگ عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جہاں صحت اور صفائی کی مناسب سہولیات کا فقدان ہے۔ ان مشکل حالات میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ موسلا دھاربارشوں سے علاقے میں سیلابی صورتِ حال بڑھ جاتی ہے،اس سال مارچ میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ لگا تار جاری رہا جس کی وجہ سے کافی لوگوں کے مکانوں پر پسیاں گرنے (لینڈ سلائیڈنگ) سے زمین بوس ہو گئے۔ تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی پنہایت لوہل بیلہ وارڈ نمبر دو اور وارڈ نمبر پانچ کے دو مکان زمین بوس ہو گئے۔
اس سلسلے میں امتیاز احمد جن کی عمر 30 سال ہے،نے بتایا کہ میرے گھر کے پیچھے بہت زیادہ پسی آنے کی وجہ سے میرا پورا مکان گر کر زمین بوس ہو گیا ہے، شدید بارش کی وجہ سے بھاری پسی آنے کی وجہ سے ہمارا دو منزلہ مکان گر کر زمین بوس ہو گیا۔ اب آپ کہاں رہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم چند مہینے کے لئے پنچایت گھر لوہیل بیلہ میں رہ رہے تھے۔لیکن جب لوک سبھا الیکشن شروع ہوا تو ہمیں وہاں سےجانے کو کہا گیا، اب ہم ایک پڑوسی کے گھر میں رہ رہے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں ہمارا کھانے پینے اور پہننے کا سارا سامان مٹی کے ساتھ مل کر بہہ گیا۔وہ ضلع انتظامیہ سے گذارش کرتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔ اسی گھر کی خاتوں رخسانہ اختر نے بتایا کہ ہمارے پاس یہی ایک مکان تھاجو شدید بارشوں کی وجہ سے برباد ہو گیا۔اب آپ ہی بتاؤ ہم کہاں جائیں؟ ہمارے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ہمیں اپنے پڑوسی کے گھر میں رہنے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ساتھ ان کو بھی مشکلیں آتی ہیں جگہ کم ہونے کی وجہ سے ہمیں کسی طرح گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا آپ کی کسی محکمے میں شکایت درج ہوئی؟
اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ”ہماری تصدیق تحصیل دار صاحب نے کی ہے لیکن ابھی تک ہمیں نہ کوئی معاوضہ ملا اور نہ ہی کوئی جگہ دی گئی ہے، ہمیں اس مکان کا معاوضہ دیا جائے تاکہ ہم دوبارہ اپنے خاندان کے لئے گھر تعمیر کر اسکیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکیں۔“شبیر احمد اور اُنکی اہلیہ نسیم اختر کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینے میں موسلا دار بارش ہونے کی وجہ سے ہمارا مکان زمین بوس ہو گیا تھا۔ ہم چار بھائی اور انکی فیملی بھی اسی گھر میں ایک ساتھ رہتے تھے لیکن اب کسی بھائی کا کوئی دوسرا گھر بھی نہیں ہے کہ وہاں چلے جائیں ہم پڑوسیوں کے گھر میں کسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ کو اور کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟اس کے جواب میں وہ بتاتے ہیں کہ ”ایک تو یہاں بیت الخلا بھی نہیں ہے،کھلے میں قضائے حاجت کے لئے جانا پڑتا ہے، ہمیں پانی بہت دور سے ڈھو کر کے لانا پڑتا ہے۔ کھانے پینے اور مال مویشیوں کے لیے بھی بہت دور سے پانی لاتے ہیں۔ گھر کی کوئی چیز بچی ہی نہیں ہے کہ ہم انہیں استعمال کریں۔لیکن کیا کریں زندگی گزارنی ہے کسی طرح سے گذارہ کر رہے ہیں۔“
لینڈ سلائیڈنگ جیسی قدرتی آفات کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو پہاڑی علاقوں میں درختوں کی کٹائی کو وکنا انتہائی ضروری ہے۔ درخت لگانے سے زمین مضبوط ہوتی ہے اورلینڈ سلائیڈنگ کا امکان کم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں تعمیراتی کاموں کے دوران حفاظتی معیارات پرعمل کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ دریاؤں کے کناروں اور پھسلن والی مٹی والے علاقوں میں اندھا دھند تعمیرات کے بجائے متوازن ترقی پر توجہ دی جائے۔ 30 سالہ محمد حنیف نے بتایا کہ ہم سب بھائیوں نے مل کر ایک ہی مکان تعمیر کیا تھا۔ لیکن تیز بارش ہونے کی وجہ سے پورا مکان ٹوٹ کر زمین کے ساتھ مل گیا۔ ہمیں چند دنوں کیلئے پنچایت گھر میں رکھا گیا،اس کے بعد ہمیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں لوک سبھاالیکشن کی سرگرمیاں ہونگی، آپ یہاں سے چلے جاؤ۔ ان کی بیوی زائدہ اختر کے مطابق جب سے ہمارا مکان پسی کے نیچے آیا ہے تب سے مکان نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں در بدر ہو کر گھر گھر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔
ہمارے گاؤں کے نمبردار و چوکیدار نے تصدیق بھی کر کے دی تھی۔ لیکن کافی وقت گزر گئے ہیں ابھی تک کسی نے یہاں آ کر خبر تک نہیں لی کہ ہم لوگ کہاں اور کس حال میں رہ رہے ہیں؟ ہماری انتظامیہ سے اپیل ہے کہ ہماری تکلیف پر دھیان دیا جائے۔“ وارڈ نمبر پانچ کے محمد فرید محمد عارف ان دونوں بھائیوں کا مکان بھی پسی گر آنے کی وجہ سے زمین بوس ہو گیا ہے، انہوں نے بتایا کے ہم نے مزدوری کر کے تین منزلہ مکان تعمیر کیا تھا۔ جو بارش کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ کیا آپ کو گورنمنٹ کی طرف سے کوئی امداد ملی؟اس پر ان کا جواب تھا کہ ابھی تک نہیں ملی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ اس حادثہ کے بعد سے ہمارے بچے اسکول بھی نہیں جا پارہے ہیں کیونکہ اسکول کی سب چیزیں تباہ و برباد ہو گئی ہیں۔ ہم گھر کے بغیر اپنے بچوں کا مستقبل کیسے بنا پائے گے؟ مقامی رحمت جان جاوید کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ جو دو مکان زمین بوس ہوئے ہیں۔ انہیں فوری طور پر معاوضہ ملنی چاہئے تاکہ یہ اپنا گھر تعمیر کر سکیں۔
اس طرح کے قدرتی آفات سے نبٹنے کے لئے حکومت اور مقامی انتظامیہ کو اس سمت میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے لوگوں میں اس طرح کی آفات کے بارے میں آگاہی بھی بڑھائی جائے۔ ان علاقوں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ٹیموں کو فعال طور پر تیارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت امداد فراہم کی جا سکے۔یہ بھی ضروری ہے کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو اس قسم کی آفات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ بروقت کی جانے والی ان کوششوں سے نہ صرف جان و مال کے نقصان میں کمی آئے گی بلکہ مستقبل میں ایسی آفات کے اثرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم پہاڑی علاقوں میں چوکسی، حفاظت اور استحکام کے ساتھ ترقی کریں تاکہ ایسے تباہ کن واقعات سے بچا جا سکے۔