جموں کشمیر کے سیاسی منظر نامہ میں روزانہ ہو رہی تبدیلیوں سے یہ اندازہ لگانا ابھی بہت مشکل ہے کہ یہاں کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کسی جماعت کے ماتھے پر حکومت کی تقدیر لکھی جائے گی۔ایک طرف جہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان انتخابی گٹھ جوڑ کو پاٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبدللہ نے ہری جھنڈی دکھائی تھی ،وہیں پارٹی کے نائب صدر کی باتوں سے یہ بُو بھی آرہی ہے کہ یہ گٹھ جوڑ ہونا نہایت ہی مشکل ہے کیونکہ نیشنل کانفرنس جیسی پُرانی اور بنیادی سطح پر مضبوط تنظیم میں دو پھاڑ ہونے کا خطرہ ہے۔اس پارٹی سے بھی پی ڈی پی اور اپنی پارٹی کی طرح لوگ پارٹی چھوڑ کر بھاگ جائیںگے جس سے اس پارٹی کو کافی زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے،یہاں میڈیا رپورٹس کی بات اگر صحیح مانی جائے تو انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور غلام نبی آزاد کی آزاد ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان انتخابات سے قبل اتحاد ہونے امکان ہے اور قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں، تو پھر پُرانی سیاسی جماعتوں کو نقصان سے دو چار ہونے پڑ سکتا ہے کیونکہ ڈوڈہ ،کشتواڑ اور رام بن اضلاع میں غلام نبی آزاد کی پارٹی کے اُمید وار کافی زیادہ مضبوط نظر آرہے ہیں، جن میں سابق وزیر عبدالمجید وانی ،سابق ایڈوکیٹ جنرل اسلم گونی اور خود غلام بنی آزاد شامل ہیں، یہ لوگ آسانی کے ساتھ عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی کا تعلق ہے، وادی میں اس جماعت کے چار اُمیدوار غلام حسن میر،دلاور میر کے فرزند یاور میر،رفیع احمدمیر اور محمد اشرف میر کے علاوہ سید الطاف بخاری مضبوط اُمید وار مانے جاتے ہیں ،جوان انتخابات میں اپنی جیت درج کراسکتے ہیں۔ جنوبی کشمیر میں محبوبہ مفتی بھی کسی حد تک مضبوط جماعت مانی جاتی ہے اور اُس کے کھاتے میں بھی چند ایک سیٹیں جا سکتی ہیں ۔ادھر شمالی کشمیر میں انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اگر اپنا سابقہ ریکارڈبر قرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اُن کے کھاتے میں چند ایک سیٹیں جاسکتی ہیں ۔وہاں سجاد غنی لون کا بھی اچھا خاصہ ووٹ بینک موجو د ہے۔اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وادی میں ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے جس کا براہ راست نقصان نیشنل کانفرس کو ہوگاکیونکہ وادی میں کانگریس پارٹی کو بھی تین چار حلقوں میں مضبوط اُمید وار ہیں جن میں خود کانگریس کے یوٹی صدر طارق حمید قرہ،غلام احمد میر اور حاجی رشید ڈار شامل ہیں ۔اگر این سی ۔کانگریس کے درمیان سیٹوں کے بٹوارے کو لیکر کسی قسم کی اَن بن ہو جاتی ہے اور دونوں پارٹیاں الگ الگ انتخابات لڑتی ہیں ،پھر نتائج بالکل مختلف ہوسکتے ہیں اور حکومت بنانے کے لئے چھوٹی پارٹیوں کا اہم رول بن سکتا ہے اور اُن پارٹیوں کے منتخب اُمید وار فیصلہ ساز بن سکتے ہیں ۔سیاسی تحزیہ نکاروں کا ماننا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کے سابقہ چند ارکان انتخابی میدان میں آجاتے ہیں تو پھر پُرانی جماعتوں کا سیاسی غرور توڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔لہٰذا علاقائی پارٹیوں کے لئے لازم ہے کہ اگر وہ اپنے بل بوتے پر سرکار بنانے میں یقین رکھتی ہیں پھر اُنہیں انتخابات سے قبل اتحاد قائم کرنا چاہیے، بصورت دیگر بی جے پی اور کانگریس ہی چھوٹی پارٹیوں سے مل کر حکومت بناسکتی ہے، جن کا ووٹ بینک جموں صوبے میں اچھا خاصہ ہے جو وہاں اچھے نمبرات حاصل کر سکتی ہے۔