منگل, ستمبر ۲, ۲۰۲۵
16.7 C
Srinagar

گژھ آہرہ بل ژلی شر

گژھ آہرہ بل ژلی شر
وچھ قدرتک سو منظر
آبس بنان چھی گوہر
گلشن وطن چھو سونوی

مولوی محمد رمضان بٹ ناگہ بل گاندربل

 

1970کی بات ہے جب میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔اسکول میں ایکسکرشن جانے کی تیاری ہو رہی تھی اور اہرہ بل جانے پر اتفاق ہوا ۔جون کا پہلا مہینہ تھا ہم اہرہ بل جانے کی تیاری میں لگے وہاں رات کو ٹھرنے کا فیصلہ ہوا۔اساتذہ صاحبان نے فی کس دس روپئے جمع کر لئے تھے جس میں بس کا کرایہ اور رات کو ٹھہرنے کا کرایہ وغیرہ شامل تھا۔ایکسکرشن جانے سے پہلے اُساتذہ نے گروپ بنانے کا حکم صادر فرمایااور ہم نے بھی اپنے محلے کے چند دوستوں سے ملکر گروپ بنایا۔ مقررہ تاریخ پراُوم کر ناتھ ہیڈماسٹر،عبدل سلام سہروردی،بشیر احمد فاروقی،غلام رسول درزی ،چمن لال شکتی،ناطری لعل کی نگرانی میں گلاب باغ ہائی سکول سے صبح سویرے ہم کے ایم ڈی بسو ںمیں سوار ہو کر ہم قافلے کی صورت میں اہرہ بل کے لئے روانہ ہوئے۔جند پڑاﺅ کے بعد شوپیاں بازار میں گاڑیوں کا قافلہ رُک گیاف جہاں ماسٹر عبدل سلام سہروردی کا آبائی گھر تھا، یہاں مولوی محمد امین شوپیانی کا گھر دیکھا جو ماسٹر جی کے برادر تھے۔شوییان بازار کو دیکھا اور خوب لطف اُٹھایا ۔یہاں سے ہم نے بھینسوں کے دود ھ سے تیار کی جانے والی (ماش کھریری) خریدی جو ہم کمسن بچوں کو تیار کرنے میںکافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔۔اہرہ بل میں موجود سرکاری ہٹ میں رات کو قیام کرنا تھا۔چند ایک دکانات کے علاوہ یہاںکچھ بھی نہیں تھا ۔صاف و شفاف ماحول تازہ آب و ہوا سے روح تازی ہوگئی۔قدت کے انمول پانی کے خزانے اور سر سبز شاداب جنگلات کودیکھ کر جنت کی یاد آگئی۔اساتذہ کے لئے پہلے سے ہی علیحدہ خاطر توازہ تھا رکھا گیا تھا جہاں اُساتذہ نے کھانا کھایا اورہم نے اپنے اپنے گروپوں میں بیٹھ کر کھایا جو واقعی ایک دلچسپ نظارہ پش کر رہا تھا۔شام ڈلتے ہی سرد ہوائیں چلنی لگی اور سبھی بچے سردی سے کپکپی محسوس کرنے لگے۔ شام کا کھانے کھانے کے بعد چند لڑکوں کو وہاں موجود دکان کے ورنڈے پر سونے کو کہا گیا کیونکہ ہٹ میں جگہ نہیں تھی ۔بہر حال ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر سو گئے سردی کا پتہ ہی نہیں چلا۔دوسرے دن یعنی اتوار کی شام کو واپس آگئے ۔اساتذہ صاحبان نے یہ کہکرسوموار کو چھٹی کا اعلان کیا تھا کہ آپ بہت زیادہ تھک چکے ہیں۔بہر حال ایک دن کی چھٹی کے بعد جب حسب عادت سکول کے کمرے میں داخل ہو گئے تو چند لڑکوں نے مجھے کھینچ کر باہر نکالا کہ آج کلاسوں کا بیکاٹ کر نا ہے۔اسکول کے نذدیک موجو د ایک میدان میں سب لڑکے جمع ہو گئے جو آج بھی بٹہ میدان کے نام سے جانا جاتا ہے۔لڑکوں نے یہ کہکر احتجاج کرنا شروع کیا کہ جو ہم سے جو ایکسکرشن کے لئے 10روپئے وصول کئے گئے ہیں اُس رقم میں گھپلا ہو ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔بہرحال یہ خبر پھیلاتے ہیں پولیس جائے موقعہ پر آگئی اور تحقیقات کی یقین دہانی کی گئی اور اس طرح احتجاج ختم ہو گیا۔دوسرے دن جب ہم سکول پہنچے تو ایکسکرشن جانے والے ہر بچے کو 2روپئے 20پیسے واپس دیئے گئے۔یہ تھا نظام حکومت اور زمہ داروں کا طریقہ جو مجھے آج بھی یاد ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img