ٹریفک کی کل سیدھی نہیں ۔۔۔۔۔

ٹریفک کی کل سیدھی نہیں ۔۔۔۔۔

وادی کشمیر خاص طور پر گرمائی دارالحکومت سرینگر میں ٹریفک کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے ۔مسافر اور نجی گاڑیوں کے لئے ایسے روٹ پلان مرتب کئے گئے ہیں ،جو عام لوگوں اور مسافروں کے لئے اذ یت ناک ثابت ہورہے ہیں ۔وجوہات پر جب نظر ڈالی جاتی ہے ،تو یہی اخز ہوتا ہے کہ ٹریفک نظام کو درست کرنے کے لئے خانہ پوری سے کام لیا جارہا ہے ۔مثالیں کافی ہیں ۔ایک مثال یہ ہے لالچوک سے جانے والی درگاہ مسافرگاڑی لل دید اسپتال روڑ سے ہوتے ہوئے ڈلگیٹ ،پھر خیام ،خانیار اور رعناواری کا روٹ لیتی تھی ،لیکن اب یہ گاڑی خیام پہنچنے سے پہلے ہی اپنا روٹ بدل کر بابا ڈیمب روڑ کا راستہ اختیار کرتی ہے ،جسکی وجہ سے اس روڑ پر کافی دباﺅ رہتا ہے اور جگہ جگہ لمبے لمبے ٹریفک جام ہوتے ہیں ۔اسی طرح یو ٹرن لینے کے لئے کافی جگہوں پر راستوں کو بند کردیا ہے ۔تاہم یہی راستے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وی آئی پیز کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں ،یعنی عوام کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔

حاکم خود کو عوام سے بالاتر سمجھتے ہیں جبکہ قانون عام لوگوں کے لئے تو ہے ،لیکن حکمرانوں یا وی آئی پیز کے لئے نہیں ۔عوام ٹیکس دیتے ہیں ،ہمارا ملک جمہوریہ ہے ،یہاں عوام فیصلہ کرتی ہے کہ پالیسی کیا ہونی چاہیے ،لیکن مجال ہے کہ عوام کی تکالیف اور اذیت ناک صورتحال کا احساس ہو ۔کیا عوام کو یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ اُن کے لئے وہ راستے بند کیوں کئے جاتے ہیں؟ جن پر ہمارے حاکموں اور وی آئی پیز کی نقل وحرکت ہوتی ہے ،کیا یہ راستے اُن کی ذاتی میراث ہیں جبکہ ان کی(سڑکوںکی) دیکھ بال عوام کے ٹیکس کی جاتی ہے ۔عوام کھانے پینے سے لیکر ہر طرح کی خریداری پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔معمولی صابن کی ٹکی ہو یا ماچس عوام اس پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ رقم سرکاری خزانہ میں جمع ہوتی ہے ،جس پر صرف اور صرف عوام کا حق ہے ۔

تعمیر وترقی اور سیکیورٹی کے نام پر راستے بند کئے جاتے ہیں ۔لوگوں کو اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے ،لیکن ہمارے حاکم تو اپنی دنیا میں جی رہے ہیں ،اُنہیں عوامی مسائل کا اندازہ نہیں ۔ ایئر کنڈیشنر گاڑی میں بیٹھنے والوں کو کہاں احساس ہوگا کہ اوور لوڈنگ کس بھلا کا نام ہے ۔راستے بند کرکے اور عام لوگوں کی رفتار روک کر گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرنے والوں کو کہاں یہ احساس ہوگا کہ عوام کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے ۔ٹریفک حکام اپنی پالیسی کے مطابق روٹ پلان مرتب کرتے ہیں ،حکمران بھی اپنی مرضی کے مالک ہیں ۔صرف اورصرف عوام پس رہے ہیں۔آئے روز دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں کہ عوام کو راحت پہنچا ئی جائے گی اُن کی معیار زندگی کو قابل قدر بنایا جائے گا ،لیکن یہی عوام گاڑیوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔
دارلحکومت سرینگر کیساتھ ساتھ قتل گاہوں میں تبدیل شاہراہوں اور قصبہ جات میں ٹریفک کی کل سیدھی کرنے کے لئے عوام دوست روٹ پلانز مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔تعمیراتی کاموں کو وقت ِ مقررہ کے اندر اندر مکمل کرنے کی ضرورت ہے ۔رات میں زیادہ تعمیری کام انجام دیئے جانے چاہیے ،تاکہ دن میں عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔جو راستے رکاٹوں سے عوام لوگوں کے لئے بند کردیئے گئے ہیں ،اُن رکاوٹوں کو ہٹانے کی ضرورت ہے ۔عوام کو بھی ٹریفک قوانین وضوابط پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔بد نظمی کے شکار ٹریفک نظام کو درست کرنے کے لئے حکمرانوں کو اپنے لئے بھی وہ روٹ پلان مرتب کرنے ہوں گے ،جو وہ عوام کے لئے ترتیب دئے جاتے ہیں ۔عوام کے لئے علیحدہ اور وی آئی پیز کے لئے الگ روٹ پلان انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا ۔خامیوں اور کوتائیوں کی نشاندہی کرنا لازمی ہے ۔تب جاکر ٹریفک نظام کی کل سیدھی ہوگی ،جو فی الحال سیدھی نہیں ہے ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.