دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں مدد گار ثابت ہوتا ڈیجیٹل خواندگی

دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں مدد گار ثابت ہوتا ڈیجیٹل خواندگی
سید طیبہ کوثر
 ڈیجیٹل خواندگی دیہی ہندوستان میں لڑکیوں کو تعلیمی وسائل کے وسیع ذخیرہ تک رسائی فراہم کرتی ہے جو پہلے ناقابل رسائی تھے۔ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ تیزی سے قابل رسائی ہونے کے ساتھ، لڑکیاں اب آن لائن کورسز، تعلیمی ویڈیوز، اور ای بک تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ رسائی جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرتی ہے، یہاں تک کہ دور دراز دیہاتوں میں لڑکیوں کو ریاضی سے لے کر کوڈنگ تک، اورزبانوں سے لے کر سائنس تک کے مضامین سیکھنے کے مواقعہ فراہم کرتی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم اکثر مقامی زبانوں میں مواد پیش کرتے ہیں، جس سے ان لڑکیوں کے لیے سیکھنے کو مزید قابل رسائی اور پرکشش بنایا جاتا ہے جن کی پہلی زبان انگریزی نہیں ہو سکتی۔اس طرح کی رسائی ملک کے دیگر دیہی علاقوں کی طرح جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کے دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو بھی فراہم ہو رہا ہے۔اس کی مثال تبسم رفیق، زبیدہ چوہدری اور سیدہ عائرہ جیسی لڑکیاں ہیں۔ جنہوں نے ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعہ اپنے مستقبل کو روشن کیا ہے۔
تبسم رفیق ایک 17 سال کی لڑکی ہے جوپونچھ کے بانڈی چیچیاں علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔تبسم اس وقت 11ویں جماعت کی طالبہ ہے۔جب وہ دسویں جماعت میں تھی تو اس کا خواب تھا کہ وہ اچھے فیصد اسکور کرے۔ اس مقصد کے لیے وہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں شامل ہونا چاہتی تھی۔لیکن گھرکے مالی حالات اور گھر سے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کی دوری کی وجہ سے وہ اس میں شامل نہیں ہو سکی۔ پھر اس کے والد نے ایک اسمارٹ فون خریدا اور اسے مطالعہ کے مقصد کے لیے دیا۔ بالآخرتبسم  نے اپنی پڑھائی کے لیے یوٹیوب کا استعمال شروع کیا اور اس نے دسویں بورڈ میں 85 فیصد نمبر حاصل کیے۔ اس کے ساتھ بات چیت میں اس نے کہا، ”مختلف مسائل کی وجہ سے اسکول میں ہر چیز کو سیکھنا اور سمجھنا کافی مشکل تھا، بعض اوقات فیکلٹی اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ ہمیں قابل فہم طریقے سے پڑھا سکے اور بعض اوقات مضامین کے لیے کوئی اساتذہ نہیں ہوتے تھے۔اس کے علاوہ فزکس، کیمسٹری میرے کمزور شعبے تھے۔ اس لیے میں نے کوچنگ لے کر ان پر کام کرنے کا سوچا۔ لیکن یہ آئیڈیا منصوبہ بندی کے مطابق نہیں چل سکا اس لیے میرے والد نے مجھے مطالعہ کے لیے یوٹیوب کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ مجھے ڈیجیٹل ٹولزجیسے کہ یوٹیوب اور گوگل کی وجہ سے سیکھنے اور مطالعہ کرنے میں کافی مدد ملی۔ پڑھائی آسان اور مزے دار بن گیی اور میں اچھا فیصد اسکور کرنے میں کامیاب رہی۔“
دیہی علاقوں میں خاص طور پر نچلے متوسط طبقے کے خاندانوں کی بہت سی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھر والوں پر کوئی مالی بوجھ ڈالے بغیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے اپنی پڑھائی کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کررہی ہیں۔بانڈی چیچیاں سے کالج جانے والی 19 سالہ زبیدہ چوہدری نے بتایا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن سرکاری اسکول سے اپنے پس منظر کی وجہ سے میں پرائیویٹ اسکول سے تعلق رکھنے والے طلباء کے مقابلے میں اپنے آپ کو کافی کم قابل محسوس کرتی رہی۔ اپنی کلاس کے دیگر طلباء سے کم تر محسوس ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے مضمون اور موضوعات کو مزید وسیع اور بہتر انداز میں سیکھنے کے لیے ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال پر کچھ اضافی وقت صرف کرنا شروع کیا، اس سے مجھے بہت مدد ملی۔ میرے گھر کے مالی حالات بھی بہت اچھے نہیں ہیں اس لئے میں ہر کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہوں۔ اس معاملے میں بھی انٹرنیٹ، گوگل، گوگل ڈرائیو اور اس طرح کے تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میری مدد کرتے ہیں۔“اس نے یہ بھی کہا کہ میرے علاقے میں بہت سی لڑکیاں اس مثبت اور مددگار طریقے سے انٹرنیٹ کا استعمال کررہی ہیں۔ میری جیسی بہت لڑکیاں مالی طور پر کمزور ہیں لیکن ہماری قوتِ ارادی اور تعلیم یافتہ بننے کا عزم بہت مضبوط ہے اور اس سفر میں ڈیجیٹل دنیا ہمارے لیے ایک اعزاز کا کام کرتی ہے۔
جیسے جیسے تعلیم کی ضرورت اور شعور میں اضافہ ہوا ہے تعلیم کی اہمیت کی طرف لڑکیوں کا رویہ یکسر بدل گیا ہے۔ پہلے دیہی علاقوں میں لڑکیاں دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرتی تھیں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کبھی کچھ سوچتی بھی نہیں تھیں۔لیکن اب منظرنامہ بہت بدل گیا ہے۔ سیدہ عائرہ بانڈی چیچیاں کے قریب قصبہ سے تعلق رکھنے والی 21 سال کی گریجیویشن کی طالبہ ہے۔وہ تعلیم حاصل کر پبلیک سروس کمیشن کا امتحان دینے اور افسر بننے کا خواب دیکھتی ہے۔اس کے لئے وہ مسلسل معلومات حاصل کرتی رہتی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح ایک بار یوٹیوب پراسکرول کرتے ہوئے اسے جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن کے بارے میں تفسیلی معلومات حاصل ہوئی۔کافی تحقیق کرنے کے بعد انہیں اس شعبے میں اپنی دلچسپی معلوم ہوئی۔ وہ گوگل جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے ان موضوعات کے بارے میں پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرتی ہے جس سے وہ مزید معلومات حاصل کرتی ہے۔ وہ لیکچرز کے لیے یوٹیوب اور ٹیسٹ دینے کے لیے ٹیسٹ بک ایپلیکیشن کا استعمال کرتی ہے۔ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا ساتھ ملنے کے بعد اب آئرہ کو پوری امید ہے کہ وہ آخر کار اس امتحان میں کامیابی حاصل کر لے گی اور ریاستی انتظامیہ میں افسر بننے کے اپنے خواب کو پورا کرے گی۔
 یہ صرف ایک تبسم رفیق، زبیدہ چوہدری اور سیدہ عائرہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان کی جیسی دیہی علاقوں کی کئی لڑکیوں نے ڈیجیٹل خواندگی کے ذریعہ تبدیلی کی ایک نئی شروعات کی ہے۔یہ تمام لڑکیاں اپنے تعلیمی مسائل سے متعلق اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بخوبی استعمال کررہی ہیں۔ ڈیجیٹل ورلڈ نے بلاشبہ ان لڑکیوں کا ہاتھ تھام رکھا ہے جنہوں نے وسائل کی کمی کی وجہ سے شاید اپنی پڑھائی چھوڑ دی ہوتی یا وہ اتنی باخبر نہ ہوتی جتنی کہ وہ ابھی ہیں۔ اس کے علاوہ گوگل اوریوٹیوب ان کے لئے ایک دوستانہ پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے جہاں طلباء کے لیے بہت سارے وسائل مفت دستیاب ہیں اوریہ ان کے لئے بہت مددگار ثابت ہوے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیمی طبقے کے درمیان فرق بھی بدل گیا ہے۔ وہ لڑکیاں جنہوں نے اپنے گھروں کی دیواروں کے باہر کبھی کچھ خواب نہیں دیکھا تھا، اب وہ بیدار،تعلیم یافتہ، خود ملازم اور خود انحصار ہونے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بخوبی استعمال کرمعاشرے کو اپنی سوچ بدلنے کا واضح پیغام دے رہی ہیں۔  وہ بتا رہی ہیں کہ دیہی ہندوستان کی لڑکیوں کی تعلیم پر ڈیجیٹل خواندگی کا بہت مثبت اثرہو رہا ہے۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2023کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.