رمضان المبارک میں تمباکو نوشی سے چھٹکارا ممکن

رمضان المبارک میں تمباکو نوشی سے چھٹکارا ممکن

سنہ2022میں کئے گئے ایک جائزے کے مطابق جموں وکشمیر سگریٹ نوشی کے معاملے میں آبادی کی درجہ بندی کے اعتبار سے ملک بھر میں 6 مقام پر ہے اور یہاں سگریٹ کی خریدوفروخت پر سالانہ 850 کروڑ روپے صرف کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سگریٹ مصنوعات کی خریدوفروخت کے معاملے میں یہ سرِفہرست ہے۔ نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں اس کے خلاف ایک بڑی آگاہی مہم چلائی گئی تاکہ نوجوان نسل کو تمباکو نوشی سے دور رکھا جاسکے۔ یہ مہم کتنی کامیاب اور موثر ثابت ہوئی؟ محکمہ صحت میں تمباکو نوشی کنٹرول پروگرام کے نوڈل آفیسر ڈاکٹر میر مشتاق کا کہنا ہے کہ سیگریٹ یا تمباکو نوشی کے دور رکھنے کے لیے قومی سطح پر یہ آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔ البتہ اس خاص مہم کے دوران نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی گئی تاکہ انہیں اس لَت سے دور رکھا جائے۔ یہ بیدرای مہم اسکول، کالج، یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں تک ہی محدود نہیں رکھی گئی بلکہ بلاک، پنچایتی اور ضلع سطح پر بھی تمباکو نوشی مخالف مہم کو زور شور سے چلایا گیا جو کہ کافی حد کامیاب بھی رہی۔
مرکزی وزارت صحت و خاندانی بہبود کی نگرانی میں کیے گئے آخری نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کے دیہی اور شہری علاقوں میں مرد آبادی کا38.3 فیصد آبادی تمباکو کی مصنوعات کا استعمال کرتی ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ کپواڑہ ضلع کی نصف سے زائد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے۔ اس سرحدی ضلع میں تقریبا56.6 فیصد لوگ کسی بھی شکل میں تمباکو نوشی کی مختلف مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد سرحدی ضلع شوپیاں کا نمبر آتا ہے جہاں 52 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے یا تمباکو نوشی کے مختلف مصنوعات کا استمعال کرتی ہے۔ ان میں سے5 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔اسی طرح ضلع اننت ناگ تمباکو نوشی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ جہاں پر49.9 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کی جاتی ہے۔ وہیں بڈگام ضلع کی 48.8 فیصد آبادی سگریٹ یا تمباکو نوشی کرتی ہے۔ جموں وکشمیر کے 20 اضلاع میں سب سے کم تمباکو نوشی کرنے والا ضلع جموں ہے جہاں صرف 26.5 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے۔ اس کے بعد کھٹوعہ ضلع کا نمبر آتا ہے۔ ادھر خواتین کی جانب سے تمباکو یا سگریٹ نوشی کے معاملے میں بانڈی پورہ ضلع سرفہرست بتایا جاتا ہے۔ جہاں9.1 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کی عادی ہیں۔ اس کے بعد کپوارہ ضلع ہے جہاں 6.8 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہے۔ اس کے برعکس سال 2022 کے سروے کے مطابق جموں وکشمیر کی گرمائی دارالحکومت سرینگر اور سرمائی دارالحکومت جموں میں سگریٹ نوشی کی عادی خواتین کی شرح بالترتیب 1.9فیصد اور0.8 فیصد تھی۔
اس تمام صورت حال کے باوجود تمباکونوشی کے نقصانات معلوم ہونے کے باوجود لوگ اسے ترک کرنے میں مکمل کامیاب کیوں نہیں ہوپاتے؟ کیا اسے چھوڑنا واقعی مشکل ہے؟آکسفورڈ یونیورسٹی نے 2014 کے لیے ’ویپ‘ کو ’ورڈ آف دی ایئر‘ قرار دیا تھا جو ای سگریٹ سے متعلق لفظ ہے مگر اس کے باوجود تمباکو نوشی کے بارے میں کیا خیال ہے جو کینسر، فالج اور امراض قلب کا سبب بنتی ہے اور اس لت سے پیچھا چھڑانا مضبوط ترین قوت ارادی کے مالک افراد کے بھی بس کی بات نہیں ہوتی۔سگریٹ میں کیا موجود ہوتا ہے؟سگریٹ میں کیمیکل نیکوٹین استعمال کیا جاتا ہے جو ایک قسم کا نشہ ہے اور پینے والے کو اپنا عادی بنا دیتا ہے۔لیکن روزے میں اس عادت اور شدید طلب کے باوجود سگریٹ نوشی کرنے والے خود کو سگریٹ سے دور رکھتے ہیں، جب وہ دن بھر سگریٹ سے گریز کر سکتے ہیں تو تھوڑی سی کوشش کرکے افطار کے بعد بھی خود کو روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور رمضان المبارک کی برکت سے اس عادت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا بھی پا سکتے ہیں۔ایک بار ایسا کرنے کی کوشش کریں اور پھر دیکھیں صحت پر کس حد تک ڈرامائی انداز میں مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، درحقیقت بغیر سگریٹ کے اولین 24گھنٹے ہی سے دل کے دورے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔تو پھر کیا آپ اس عادت سے چھٹکارا چاہتے ہیں؟ تو ابھی عہد کریں ،کامیابی ضرور ملے گی ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.