زکواة کا اصل مقصد ۔۔۔

زکواة کا اصل مقصد ۔۔۔

مسلمانان عالم کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ انتہائی متبرک اور رحمتوں والا مہینہ ماناجاتا ہے ۔یہ مہینہ بنی نوع انسان کو نہ صرف جسمانی طور تندرست رہنے کی ترغیب دیتا ہے، بلکہ ایک دوسرے سے ہمدردی اور مدد کی تلقین بھی کرتا ہے۔قران مقدس میں یہ بات روزوں کے حوالے سے صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ ماہ مبارک کے روزوں کی بدولت ایک مسلمان کو تقویٰ اور پرہیز گار بناتا ہے۔یہاں یہ بات بھی صاف طور پر واضح ہے کہ کسی کے بھوکھے رہنے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑتاہے، سوائے آپ کے خلوص کے ،جو بندگان خدادن بھر فاقہ رہے گا لیکن اپنی طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا، اُس کو فاقوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔جس نے ا پنی طرز زندگی میں تبدیلی لائی ،گناہوں سے پرہیز کیا،جھوٹ بولنے سے دور رہا ،کسی کا حق کھانے سے کنارہ کشی اختیار کی ،غریبوں ،محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کی ترغیب سیکھی ،واقعی اُس انسان نے کامیابی حاصل کی اور اُس کو دنیا و آخرت میں آسانی نصیب ہوگی۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ اس متبرک مہینے میں دنیا کے سب مسلمان خیرات و صدقات اور زکواة دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُن کے ارد گرد رہائش پذیر لوگ بھی زندگی خوشحال طریقے سے گزار سکیں،مگر دیکھا جاتا ہے کہ ہماری وادی میں زکواة ،صدقہ فطر اور خیرات دینے کا طریقہ غلط ہے۔
ہر انسان زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کی غرض سے ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ یہ سوچ کر دیتا ہے کہ اُس کی زکواة ادا ہو جائے گی ۔ان مانگنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی یہ تجارت ہے ،جو ایک منظم گروہ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ۔ان لوگوں کو زکواة دینے سے وہ معاملہ پورا نہیں ہوتا ہے، جو شریعت محمدی ﷺ کا اصل مقصد ہے کہ دنیا میں سے غربت و افلاس پوری طرح سے ختم ہونی چاہے لیکن زمینی سطح پر یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ روز بروز ان بھکاریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،بہتر یہ تھا کہ ہم اس زکواة ،صدقات اور خیرات کو اُن اداروں کے حوالے کریں، جو حقیقی معنوں میں ان رقومات کا بہتر ڈھنگ سے استعمال کرتے ہیں ۔
معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہاو¿ کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوٰة کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ زکوة کی برکت سے امیروں کی دولت غریبوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظامِ زکوٰةکے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظامِ زکوة کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔بہت سارے ایسے ادارے وادی کشمیر میں بھی موجود ہیں، جو ایک غریب انسان کو روزگار فراہم کرنے کے لئے ایسے تجارتی یونٹ فراہم کرتے ہیں ،جس کے ذریعے سے وہ چند مہینوں میں ہی مالدار ہو کر خود صاحب زکواة بن جاتے ہیں اور آئندہ سال وہ بھی کسی خیراتی ادارے میں زکواة دے کر اپنے فرائض پورے کرتے ہیں ۔مسلمانوں کو چا ہیے اجتماعی طور پر زکواة ،خیرات اور صدقات ایسے اداروں کو دیں جو صحیح سمیت میں مستحق انسان تک پہنچ سکے، اس طرح اصل مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور مسلمانوں میں غربت و افلاس بھی دور ہو جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.