سبزیوں کی کاشت کا سیزن

سبزیوں کی کاشت کا سیزن
 وادی کشمیر میں موسم بہار نے دستک دی ہے ۔بادام کے سگوفے پھوٹ چکے ہیں ۔باغیچوں اور گھروں کے صحنوں کے گملوں میں پھول بھی کھلنے لگے ہیں ۔یہ موسم جہاں فضا کو رنگین اور معطر بنا تا ہے ،وہیں یہ موسم کاشت کاری کے لئے بھی موزون سمجھا جاتا ہے ۔دراصل مارچ وہ مہینہ ہوتا ہے ،جس میں باغبانی کا رجحان اپنے عروج پر ہوتا ہے ۔اس سال 23مارچ کو ایشیاءکا سب سے بڑا باغ گلِ لالہ بھی سیاحوں اور عام سیلانیوں کے لئے کھول دیا جائے گا ۔در اصل یہ وہ موسم یا سیزن ہوتا ہے ،جب لوگ باغبانی اور کچن گارڈن کی طرف راغب ہو رہے ہیں ،جو کہ خوش آئند بات ہے۔ مہنگائی کے اس عالم میں کچن گارڈن غریب اور متوسطہ گھرانوں کے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہورہا ہے ۔سبزیوں کی قیمتیں اس وقت آسمان سے باتیں کررہی ہیں ،ایسے میں اگر گھروں کے صحنوں اور خالی جگہوں کو سبزیوں کی کاشت کے لئے استعمال میں لایا جائے ،تو کچن کا بجٹ کسی حد تک اعتدال پر رہ سکتے ہیں ،جو ہر مہینے بے اعتدال ہوتا رہتا ہے ۔کچن گارڈن بنانے یا اس کے استعمال میں لانے کے لئے چند بنیادی اصول ہیں ،جن پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔
ماہرین زراعت کا ماننا ہے کہ کچن گارڈن بنیادی طور پر آرگینک فارمنگ کا حصہ ہوتا ہے ،جس مین کیمیکل کھادوں کا استعمال نہیں ہوتا ہے ،کیوں کہ لوگ کچن گارڈن کا قیام یا تو خود مصروفیت کے لئے یا پھر شوقیہ طور پر عمل میں لاتے ہیں ۔چونکہ اس وقت پوری دنیا کیمیکل کھادوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے آرگینک فارمنگ پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے جبکہ ملک ِہندوستان میں بھی بہت پہلے یہ رجحان پر وان چڑھ چکا ہے اور حکومتی سطح پر آرگینک فارمنگ کے لئے کئی اسکیمیں متعارف کرا نے کے علاوہ بیداری مہم بھی چلائی جاتی ہے ۔تاکہ لوگوں کو کیمیکل کھا دوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے ۔ ماہرین زراعت کہتے ہیں کہ لوگ کیمیکل کھاد کے مضر اثرات سے بچنا چاہتے ہیں، ایسے میں سب کی تلاش ہے کہ کھاد کی بجائے ورمی کمپوسٹ سے فصل اگائی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ ورمی کمپوسٹ کو گھروں میں کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟اس کا طریقہ کیا ہے؟۔ ہم ورمی کمپوسٹ کچن سے نکلنے والے ویسٹ، گھاس اور ردی چیزوں سے بنا سکتے ہیں۔ اس سے ہمارا ماحول پاک و صاف ہوگا۔ یہ کچن ویسٹ عام طور پر دریا کے کناروں پر ہم ڈالتے ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی کا خدشہ رہتاہے اور طرح طرح کی بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ورمی کمپوسٹنگ کھاد کی ایک قسم ہے۔ جس میں زمینی کیڑوں ( ارتھ ورم کی مخصوص اقسام) کا استعمال کر کے نامیاتی مادہ کے گلنے کے عمل کو بڑھایا جاتا ہے۔ زمینی کیڑے نامیاتی مواد کو کھاتے ہیں اور انہیں اپنے نظام انہضام سے گزارتے ہیں اور دانے دار شکل (کوکون ) میں بدل دیتے ہیں جسے ورمی کمپوسٹ کہا جاتا ہے۔ نامیاتی باقیات، جیسے بھوسے، پتے، شاخوں، جڑی بوٹیوں و غیرہ کو ورمی کمپوسٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ زمینی کیڑے نامیاتی مادہ کھاتے ہیں اور اس کی مقدار کو40سے60فیصدتک کم کر دیتے ہیں۔ ہر زمینی کیڑے کا وزن تقریباً0-5 سے 0-6 گرام ہوتا ہے۔ وہ اپنے جسمانی وزن کے برابر مادہ کھاتا ہے اور ایک دن میں کھانے والے تقریباً50 فیصد مادے کے برابر کمپوسٹ پیدا کرتا ہے۔محکمہ زراعت، محکمہ ہاٹیکلچر اور بلاک سے ورمی کمپوسٹ یونٹ بنانے کے لیے اچھی رقم مل جاتی ہے۔ ورمی کمپوسٹ یونٹ کے ذریعہ کم سرمایہ کاری کے ذریعہ نہ صرف ہم اچھی خاصی رقم حاصل کر سکتے ہیں، ساتھ ہی ہم اپنے ماحول کو بھی پاک و صاف رکھ سکتے ہیں۔ نیز’آرگینک فار منگ ‘کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں اور ماہانہ بجٹ کو بھی ترتیب میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.