"کُنیرے بوزکھ” شیخ العالم کی تعلیمات پر تیار کیا گيا ڈاکٹر غلام نبی حلیم کا ایک سنگ میل

"کُنیرے بوزکھ” شیخ العالم کی تعلیمات پر تیار کیا گيا ڈاکٹر غلام نبی حلیم کا ایک سنگ میل

توصیف رضا

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب سریر خامہ نواے سروش ہے

اگر میں اپنی گفتگو کا آغاز غالب کے اس شعر سے کروں تو مجھے یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اللہ تعالی نے ہر دور میں بنی نو انسان کی ہدایت کے لئے اپنے مقرب بندوں کو مبعوث کیا ہے ۔ پہلے انبیا اور پھر انبیا کا سلسلہ بند کرنے کے بعد اولیا کا نزول جاری فرمایا ۔ اُن ہی اولیا کو الہام اور تصرفات سے نواز کر اقوامِ عالم کے لئے رشد و ھدایت کا زریعہ بنایا ۔ اللہ تعالی نے وادئ کشمیر کو بھی اولیا اللہ سے نواز کر ہم بے بس لوگوں پر احسان اعظیم فرمایا ہے اُن ہی اللہ کے نیک بندوں میں ہماری ثقافت اور روحانی میراث کے بانی حضرت شیخ العالم رحمت اللہ علیہ بھی شامل ہیں ۔ آپ ہماری وادی کے بلند پایہ ولی ، روحانی پیشوا اور ایک اعظیم درجے کے شاعر گزریں ہیں اس سے بڑی بات یہ ہے کہ کشمیری قوم آپ کو مفسرِ قران کے لقب سے تعبیر کرتی ہے اور تو اور آپ کے کلام کو براہ راست کوشُر قران ہی کہتے نظر آتی ہے ۔ شیخ العالم رحمت اللہ علیہ کا کلام تو ھدایت کی صورت میں ہمارے لئے احسان ہے ہی مگر آپ کے کلام پر بات کرنے والوں اور آپ کا کلام ہمیں سمجھانے والوں کا بھی ہم پر برابر احسان ہے کیوں کہ انہوں نے آپ کے کلام کی باریکیاں سمجھی اور عام فہم زبان میں ہمیں اس کلام کی چاشنی سے ہمکنار کیا ۔ میرا آج کا یہ مختصر مقالہ ایسی ہی ایک کتاب پر مبنی ہے کتاب کا نام "کُنیرے بوزکھ” ہے اور اس کے مصنف وادی کے معتبر ادیب ،نقاد ، اسلامک اسکالر اور شیخیات کے ماہر جناب ڈاکٹر غلام نبی حلیم صاحب ہیں ۔ بندرہ بڑے اہم موضوعات میں منقسم یہ کتاب 248 صفحات پر مشتمل ہے۔

"کنیرے بوزکھ”نامی یہ کتاب صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک چمکتا ہوا جوہر ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنی محنت حکمت اور علمدار سے عقیدت کے توسط سے تیار کیا ہے ، یہ کتاب ایک ایسا لا مثال تحفہ ہے جو کشمیر کی میراث کے علمبردار شاندار روحانی پیشوا حضرت شیخ العالم رحمت اللہ علیہ کی گہری تعلیمات کو سامنے لاتا ہے۔ یہ کتاب ایک ہدایتی چراغ کی مانند آنے والی نسلوں کو راہ ہدایت سے سرشار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص روحانی منظر نامے کو دیکھنے پرکھنے اور اُس پر سوچ کر عمل کرنے کے لئے آمادہ کرتی رہے گی ۔ حلیم صاحب نے اس کتاب کے زریعے حضرت شیخ رحمت اللہ علیہ کی تعلیمات کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق سمجھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ "زیر بحث کتاب کنیرے بوزکھ قارئین اور حضرت شیخ نور الدین نورانی رحمت اللہ علیہ کے درمیان ایک واسطہ پیدا کر رہی ہے جو ہمیں وقت کے محدود دائروں سے باہر نکل کر ماضی کی روحانی قوت اور موجودہ دور کا تعلق سمجھنے کی دعوت پیش کرتی ہے ۔

کتاب کا نام اور اس کا روحانی پہلو :

آپ جوںہی کتاب کو کھولیں گے تو اپتدا میں ہی صفحہ نمبر پانچ پر آپ اس کلام کو پایں گے "کُنیرے بوزکھ کُنہ نو روزَکھ ،امی کُنرن دیت کوتاہ جلاو عقل تہ فکر تور کوت سوزکھ ، کمی مالہ چێتھ ہیوک سُہ دریاو” اگر چہ اسی شلوک کی مناسبت سے کتاب کا نام "کُنێرے بوزکھ رکھا گيا ہے” ۔ تاہم یہ کتاب جن وجوہات کی بنا پر اہم ہے اُن میں سے اُس کتاب کا نام بھی ہے۔ دراصل ڈاکٹر حلیم صاحب کتاب کا نام کنیرے بوزکھ رکھ کر ایک دعوتِ عام پیش کر رہے ہیں کہ شیخ العالم باقی تمام اولیا کی طرح داعی ہیں اللہ کے ایک ہونے اور اُس کے وحدہُ لا شریک ہونے کے ۔ یہ نام بذاتِ خود ایک اصول قائم کر رہا ہے کہ اسلام کے منجملہ امتيازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ دینِِ اسلام بیک وقت عقائد اور اعمال (Beliefs and Practices ) کا مجموعہ ہے ۔ اگر اعمال جسم ہے تو عقائد اس میں روح کی حیثیت سے موجود ہیں ۔ عقائد میں بھی سب سے اہم عقیدہ اُس قادرِ متعلق کی یکتائی کو سمجھنا پرکھنا اور ماننا ہے اسی ایک عقیدے پر انسان کی بقا کا انحصار ہے ۔ علمِ بیان کی رو سے یہ نام مخاطبت یعنی بیانی نوعیت کا ہے اور اپنا مزہبی ،سماجی ، ثقافتی ، تربیتی اور روحانی پہلو واضح طور پر بیان کر رہا ہے۔ جیسے قران میں اللہ تعالی نے مخاطب ہوکر سورہ اخلاص میں فرمایا "قُل ھو اللہ احد” کہہ دو کہ اللہ ایک ہے بلکل اُسی طرح اس کتاب کا نام خطابت کے فرائض انجام دے کر اللہ کے ایک ہونے ، ہر شے کا مبتدا کلیتاً اُسی کی ذات ہونے اور ہر رنگ و نور میں اُسی کا ظہور ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔

کتاب میں موجود موضوعات کا سرسری جائزہ:

کتاب میں یوں تو پندرہ ہی موضوعات ہیں لیکن موضوعات کی وسعت اتنی ہے کہ ہر ایک موضوع پر الگ الگ کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ کتاب کا نام بطورِ تمحید پیش کرنے بعد پہلا موضوع نفس ہے ۔ نفس کی تعریف کے بعد نفس کے اقسام ،احوال ،اور علاج بتایا گيا ہے جو کسی تحقیق سے کم نہیں ہے ۔ نفس کی علمی اور روحانی تحقیق کتاب میں درج کرنے سے کتاب کی وقعت دوبالا ہوجاتی ہے اور قاری کے لئے ہدایت کا ایک اہم زریعہ بن جاتی ہے۔ کتاب میں نفس کی گہری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف کو اسلامی اور صوفی علوم پر کافی دسترس حاصل ہے۔ نفس کے حوالے سے حلیم صاحب نے کتاب میں فطرت اور شریعت کے درمیان ایک برج قائم کیا ہے اور پھر درمیان میں اختلاف کی گنجائس کم کرتے ہوئے ایک توازُن قائم کیا ہے تاکہ پڑھنے والا تزبزُب کی وجہ سے ایک منفی راے قائم کرنے سے محفوظ رہ سکے ۔ نفس کے حوالے سے پیش کئے گئے کلامِ شیخ کی شرح اتنی خوبصورت ہے کہ پڑھنے والا بار بار لطف اندوز ہوتا ہے۔ مثال کے طور دئے گئے کلام اس کی شرح کو ہی دیکھ لیجئے ۔

نفسی کوڈُس اٹی أٹی
نفسی کورُس پشیمان
نفس چھ مدہوس تہ ہانَکل ژٹی
نفس یمی روٹ ووت لامکان

اس شلوک کی شرح کرتے ہوئے مصنف فرماتے ہیں کہ نفس ایک عربی لفظ ہے گرایمر کے اعتبار سے ایک مونث اسم ہے اس کے معنی ہیں جان ، خود ذات ، روح یا پھر جسم یعنی ایک ایسی طاقت جو غذا کی تلاش میں ہے جو دراصل شہوت کو طاقت دیکر اُستوار کرنے کے لئے کام کرتا ہے بعد میں تمام اعضا کو گناہ پر اکسانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ ایک فطری طاقت ہے اور شریعت اس طاقت کو قابو میں رکھنے کے لئے ایک طریقہ ہے اور جو انسان اس فطری قوت کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتا ہے وہی اللہ کی معرفت کا جام نوش کرتا ہے ۔

شیخ العالم کے کلام میں عشق:

کتاب کا دوسرا عنوان عشق ہے مصنف کے مطابق یہ لفظ اگر چہ قران و حدیث میں براہ راست موجود نہیں ہے مگر دنیا کے ہر صوفی کی طرح حضرت شیخ العالم رحمت اللہ علیہ نے بھی اس لفظ کو اپنے کلام میں شامل کیا ہے ۔وہ بھی بلکل اُسی طرح جس طرح رومی ، سعدی اور شیرازی جیسے اعظیم شعرا نے کیا ہے اسی وجہ سے عشق لفظ نے تحقیق کے لئے کتاب میں ایک بنیادی اور اہم موضوع کی حیثیت سے جگہ پائی ۔ عشق کے لفظی ، لغوی اور مرادی کی معنوئی صورتوں کے علاوہ عشق کے درجات بھی کتاب میں لکھے گئے ہیں ۔ علاوہ ازیں عشق کی اسطلاح اور اس لفظ کے استعمال کی تاریخ اور اصول بھی کتاب میں موجود ہیں بلکہ کہی کہی پر تو عرفہ اور سوفیا کا کلام بھی شاملِ متن ہے جس سے کتاب کی لثانی صحت قوی سے قوی تر ہوتی نظر آئی ہے ۔ صوفیا کے لئے عشق اپتدا سے ہی سلوک کی راہ میں سفر کا ایک اہم پڑاو رہا ہے اس لئے حضرت شیخ بھی اپنے منفرد انداز میں کہتے ہیں

عشق چھ کُن شُر ماجہ مَرن
سوے میوٹھ او ہر کرِ تہ کہی
عشق چھ کنڈیو زال وتھرُن
سُہ ہے زولہٕ کرِ تہ کہی

واقعی عشق ایک ایسی دشت کا سفر ہے کہ اس نام سن کر ہی کلیجہ منہہ کو آئے لیکن اپنے میٹھے انداز میں مصنف حوالہ جات کے ساتھ صوفیا کا کلام پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ عشق ہی تو ہے جو انسان کو خالقِ کائنات ذات میں فنا ہونے کو ابھارتا ہے اور بندگی کے اعلیٰ ترین درجے پر فائض کرتا ہے ۔

معرفت الٰہی اور کلام شیخ :

معرفت کے لفظی معنی پہچھانے یا جاننے کے ہيں ۔ اصطلاح شریعت میں اللہ کی پہچھان حاصل کرنے کو معرفت یا پھر معرفتِ الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں معرفت کے حوالے سے مضمون باندھ کر جو تفصیلات پیش کی ہیں وہ کسی علمی خزانے سے کم نہیں ہے آپ نے معرفت کے لفظی ،لغوی ،مرادی اور اصطلاحی معنی پیش کرکے قاری کو تفصیل کے ساتھ معرفت کے عرفان سے آشنا کیا جو کہ اس کتاب کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ شیخ العالم رحمت اللہ علیہ کے منفرد انداز میں معرفت کو پیش کرنے کو آپ نے سمجھایا تو ہے ہی ساتھ میں آپ نے باقی موضوعات کی طرح اس میں بھی مختلف فصلیں قائم کی ہیں جس سے موضوع زیادہ واضح ہوا ہے ۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں ۔

صاحب ژے بوڈ چھ کانہہ نے
تگہ ہیم کرہے ژے اطاعت
بہ یُد زانہ ہا دنیا کینہہ نے
نا حق دنیہچ بر ہا نہ برانتھ

اس شلوک کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں ۔ ان الفاظ کے زریعے حضرت شیخ معرفت کے حوالے سے اپنے عقیدے کی یاد دہانے کراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنے خالق اور مالک کی معرفت ایک لازمی امر ہے اس لئے اپتدا رب کائنات کی مناجات سے کر رہے ہیں ۔ اُس کی برتری اور پاقی بیان کرنے کے باد پیرِ کامل اللہ کی معرفت حاصل نہ کرنے میں خود کو ہی معزور بتا رہے ہیں اور اپنے ہی نفس پر دنیا کا غلبہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہیں ہے تاکہ معرفت کے متلاشی انسان کے لئے ایک رہنما اصول قائم ہو اور اس کی راہ آسان ہو اور طالب معرفت کی چاشنی سے سرشار ہو۔ دنیا کے ہر ولی کی طرح حضرت شیخ العالم نے بھی روحانی سفر کے ہر پہلو کو اور اپنے سفر کے تجربات کو اپنے جامع کلام کے زریعے واضح کیا ہے ۔

شیخ العالم ایک نعت گو شاعر:

دنیا کی مقدس ترین صنف نعتِ رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم اس کتاب میں سب سے بڑا مضمون ہے جس کی اپتدا ایک طویل اختلافی بحث سے ہوئی ہے جس میں اُدبا کا ایک حلقہ حضرت شیخ العالم رحمت اللہ علیہ کو کشمیر کا پہلا نعت گو تصور کرتی ہے جبکہ دوسرا حلقہ اس بات کے مخالف ہوکر اس بات سے کلیتاً انحراف کرتا ہے ۔ اس اختلاف میں ڈاکٹر صاحب پہلی راے کے قائل ہیں اور اپنے تاریخی اور تحقیقی شواہد کی رو سے اپنے قول کو ثابت کر رہے ہیں ۔ نعت گوئی یا پھر زکر رسول صل اللہ علیہ وسلم کے اس طویل اختلاف میں اگر چہ دونوں قول معتبر ہیں مگر اس بات سے اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے کہ زکرِ مصطفے صل اللہ علیہ وسلم براہ راست نعت خوانی ہی ہے ۔ "پاری پاری لگی زِ تَس پیغمبرس یسندس دورس رحمت چھے جاری کالی ییلہ حق لگہ روزِ محشرس تسی کون وومید وار آسن سٲری” دئے گئے کلام میں براہ راست شانِ مصطفوی صل اللہ علیہ وسلم ظاہر ہو رہا ہے اس لئے کہہ ہی نہیں سکتے کہ شیخ العالم رحمت اللہ علیہ نعت خوان یا نعت گو نہیں ہیں ۔

کتاب میں زکر ، زو ، موت ، فُقر ، منقبت ، ستہ ریشی اور قبر جیسے اور بھی کئی موضوعات موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر موضوعات تحقیقی اور تخلیقی نوعیت کے ہيں ہر موضوع میں نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل اور دلائل کے حاشیے بھی شامل ہے۔ ہر موضوع میں الگ الگ تمحید باندھی گئی ہے جس وجہ سے یہ کتاب ہر طرح کے قاری کے لئے مفید اور کار آمد ثابت ہوگی ۔ ہر ایک موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اتنا کہنا ضروری ہے کہ کتاب میں کچھ اہم موضوعات شامل کر کے ایک تحقیقی کام کی سنگ میل ڈالی جا رہی ہے جو کہ کشمیری زبان میں اپنے میعار کا ایک بہترین بلکہ پہلا کارنامہ ہے

کتاب میں زبان کی نوعیت:

کشمیر میں اہلِ زبان کو خود اپنی زبان کے تـجزیئےکی ضرورت شاذ و نادر ہی پڑتی ہے چنانچہ زبان کے تجزیئے اور اسکے قواعدی ڈھانچے کی پہچان کا کام عموماً غیر کشمیری بلکہ ملکی لوگ شروع کرتے ہیں اور اہلِ زبان بہت بعد میں اس کارِ خیر میں شریک ہوتے ہیں۔یہاں میرا یہ موضوع تو نہیں ہے مگر یہ بات ایک اہم بات ہے کہ کشمیری زبان اگر چہ ایک زخیم زبان ہے مگر بہر صورت اس کی لثانی اور ساختی (Lingual &Structural) صورتحال پر ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں تک حلیم صاحب کی کتاب کی لثانی خوبیوں کا تعلق ہے وہ خوب سے خوب تر ہیں ۔ آپ نے اس کتاب بلکہ اپنی ہر کتاب کے زریعے فصیح الثان اور بلیغ الکلام ہونے کا بہترین ثبوت پیش کیا ہے ۔ کتاب میں آپ کی زبان آسان ،رواں اور با محاورا ہے جس کی وجہ سے کتاب کے حسن میں چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ قرانی آیات ، احادیث ، آقوالِ زرین اور فارسی اردو اشعار کا ترجمہ کافی دلکش اور دلفریب زبان میں کیا گيا ہے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ یہ کتاب اپنے آپ میں ایک شاکار ہے۔ آخر پر میں حلیم صاحب سے مخاطب ہوں جناب شیخ العالم اور مزہبی تعلیمات پر تو تحقیقی کام تو آگیا اب شیخ العالم اور ان کے باقی فلسفیانہ پہلووں پر آپ کی تحقیق کا انتظار رہے گا

نوٹ : مضمون میں شامل کلامِ شیخ کشمیری کی پیڈ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیری رسم الخط میں نہیں ہے جس کے لئے میں معزرت کرتا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published.