افسانچے____ کوشش

افسانچے____ کوشش
ہلال بخاری
عروا ایک چھوٹی بچی تھی جو بہت کمزور تھی، اتنی کمزور کہ اس سے آسانی کے ساتھ دوڑا بھی نہیں جاتا تھا۔ کچھ دیر چلتے ہی اس کی سانس پھولنے لگتی تھی۔ اسکے والدین ، ظاہر ہے، اس کی اس حالت کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ عروا نے خود بھی اب جیسے اپنی کمزوریوں سے ہار مان لی تھی۔ وہ اب ہر قدم پھونک پھونک کر اور سہمے سہمے انداز میں اٹھایا کرتی تھی۔
 پھر ایسا ہوا کہ اس نے کئی راتوں کو مسلسل ایک جیسا ہی خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ رندک (جو کہ اس کے رہائش کے قریب ایک پہاڑی تھی ) کی سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ کر کھلکھلا کر ہنسی رہی ہے۔
  اس نے کئی بار اپنے خواب کے بارے میں اپنے بابا سے ذکر کیا۔ مگر اسے محسوس ہوا کہ بابا نے اسکی باتوں کی طرف ذیادہ دھیان نہیں دیا۔ اسے لگا کہ اس کا بابا اسے کسی اہم کام کے لایق نہیں سمجتا۔
پھر ایک دن اس نے ٹھان لی کہ آج وہ اس اونچی چوٹی کو سر کرکے ہی دم لے گی۔ وہ صبح سویرے دوڑنے لگی مگر کچھ دور جاکر ہی وہ لڑکھڑا کر کر پڑی۔ وہ رونے لگی۔ اسے لگا کہ اس کا بابا اس سے بہت ناراض ہوگا۔
مگر بابا نے اسکے قریب آکر کہا،
” شاباش میری بچی۔ مجھے آپ پر فخر ہے۔”
یہ سن کر وہ حیران ہوئی اور اس نے پوچھا،
” مگر بابا آپ تو میری ان باتوں پر دھیان ہی نہیں دیتے تھے ؟”
یہ سن کر بابا نے مسکرا کر کہا،
” اب تک آپ صرف کہتی تھی۔ لیکن آج آپ نے پہلی بار کوشش کی ہے اور یہ کوشش ہی ایک دن آپکو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں کامیاب ہوگی۔”
یہ سن کر عروا نے اپنے جسم کے اندر ایک حیرت انگیز حرارت محسوس کی اور اسے لگا جیسے اسکی سب کمزوری دور ہونے لگی ہے اور وہ اب تندرست ہونے لگی ہے۔”
ماہر امراض
گزرے ہوئے زمانے کے کچھ طبیب اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے آج تک مشہور ہیں اور انکے قصے اور کہانیاں لوگ دہراتے ہیں۔
لیکن آج کے زمانے میں بھی کچھ ڈاکٹر واقعی ماہر امراض ہیں۔ یہ ہمارے جسمانی امراض کے علاوہ ہمارے ذہنی اور روحانی کیفیات سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک ماہر امراض سے صلاح لینے کی ضرورت کچھ دن پہلے مجھے پڑی۔
میرا معاینہ کرنے کے بعد اس نے ایک لمبی پرچی دوائیوں کی لکھ دی اور ساتھ ہی کہا،
” ایک تو یہ دوائی مسلسل مقرر وقت پر کھاؤ اور سبزی اور چاول کے علاوہ تمام کھانے کی چیزوں سے پرہیز کرو۔ "
یہ سن کر میں نے احتیاط سے عرض کیا،
"ڈاکٹر صاحب میرا ماننا ہے کہ دوائی کھانے کے بعد ہمکو کسی پرہیز کی ضرورت نہیں ہونی چائیے۔ "
یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا،
” جناب ایسا سمجھ لو کہ دوائی کھانا گزشتہ گناہوں کی سزا ہے اور پرہیز انکی توبہ۔ کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ جنکی سزا ملے بغیر انکی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔”
میں انکی یہ دانائی سے لبریز باتیں سن کر بہت متأثر ہوا اور انکے چہرے پر میں نے ایک پرکشش مسکراہٹ کا دیدار کیا۔ اگر چہ دل کرتا تھا کہ ان کے پاس بیٹھتا ہی رہوں لیکن مجھے اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ انکا وقت انکے علاوہ دوسروں کے لئے بھی کتنا قیمتی ہے۔
میں نے عرض کیا ،
"اچھا  ڈاکٹر صاحب کوئی اور صلاح ہے میرے لیے ؟”
 "ہاں”
"وہ کیا ؟”
” آپ کو اپنا ذیادہ ہی خیال رکھنا چاہیے۔”
"اس کا کیا مطلب ہے ؟”
” میں نے آپکی کیس ہسٹری کو غور سے دیکھا ہے۔ اگر آپ اپنا خیال نہ رکھیں گے تو آپکو کچھ موروثی مرائض سے جوجھنا پڑھ سکتا ہے۔”
یہ سن کر میں نے اپنا سر ہلا کر کچھ حیرت اور کچھ فکر کے ملے جلے جزبے کے ساتھ کہا،
"جی ڈاکٹر صاحب۔”
اس نے میری ذہنی پریشانی کو سمجھتے ہوئے بڑے ماہرانہ انداز میں کہا،
” ہم کو جان لینا چاہیے کہ ہمارے والدین سے ہمیں وراثت میں صرف زمین اور جائیداد ہی نہیں ملتی، انکے امراض بھی مل سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی ہم انسان صرف اسی لئے نہیں کہلاتے کہ ہماری شکلیں ہمارے آباؤ اجداد سے ملتی ہیں بلکہ اس لئے بھی کہلاتے ہیں کہ ہمارے دکھ درد بھی انکے ہی جیسے ہیں اور اس دنیا میں ہمارا خاتمہ بھی تو اکثر یکساں طریقوں سے ہوتا ہے۔”
میں ڈاکٹر صاحب سے رخصت ہونے کے بعد دیر تک انکی باتوں کو اپنے ذہن و دل میں جزب کرتا رہا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب صرف ایک طبیب ہی نہیں تھا بلکہ واقعی میں ایک ماہر امراض تھا۔

مصنف استاد ہائی سکول کرالہ ویٹھ کنزر

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.