کیا چلاس میں بس حملے کے پیچھے پاکستانی کرائے کے قاتلوں کا ہاتھ ہے؟

کیا چلاس میں بس حملے کے پیچھے پاکستانی کرائے کے قاتلوں کا ہاتھ ہے؟

پاکستان اپنے غیر قانونی قبضے والے علاقوں پاک مقبوضہ جموں وکشمیر (PoJK) اور گلگت بلتستان (GB) میں ملک مخالف جذبات کو دبانے کے واسطے کسی طرح کی مہلت یا حل کے لیے شدت سے غور وخوض کرتا رہا ہے۔ اس نے اشیائے خوردونوش، صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی اشیاء کی تقسیم میں تخفیف کرنے سے لے کر پاکستانی فوج کی عسکری قوت، بنیاد پرستی کا استعمال کرنے، معصوم لوگوں، رضاکاروں اور طلبہ کو ماورائے عدالت قتل کرانے، نیز شہریوں کو اپنی زمین پر اپنے قانونی حقوق سے محروم کرنے تک سب کچھ آزمایا ہے۔

ان علاقوں میں آج کی خبروں کی کوریج اس حقیقی صورت حال کی کہانی ہے، دہائیوں سے بین الاقوامی میڈیا جس حقیقت کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہا ہے وہ ہے- مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی نفرت انگیز نسل پرستی۔ اس ملک نے ’’آزادی‘‘ کے بینر تلے اور ریاست کی سرپرستی والی دہشت گردی کے ذریعہ مقبوضہ علاقے کو بین الاقوامی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ لیکن اب یہ پھر سے خوف کی لپیٹ میں ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی بدولت خطے میں اس کا اثر ورسوخ ماند پڑچکا ہے۔

گزشتہ ہفتے چلاس (GB) میں، ایک بس پر "نامعلوم”بندوق برداروں نے حملہ کیا جس میں 9مسافروں کی موت ہوگئی اور 26دیگر زخمی ہوگئے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیسے یہ پرتشدد واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب گلگت بلتستان میں تاریخی طور پر سب سے بڑی سول نافرمانی کی تحریک چل رہی ہے۔ حکومت نے سات دہائیوں سے مقامی باشندوں کی دیرینہ شکایات کا ازالہ نہیں کیا جس کے خلاف وہ ایک سال سے دھرنا دے رہے ہيں اور مکمل چکہ جام کرکے ہڑتالیں کر رہے ہیں۔

یہ بات بڑے پیمانے پر مشہور ہے اور معروف حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان نے اس انقلاب کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا، لیکن وہ اس پر قابو نہیں پاسکی کیونکہ شہریوں نے طویل عرصے سے جبر کے خلاف مزاحمت جاری رکھا ہوا ہے۔ یہی بات بس "حملے”کو منفرد بناتی ہے۔

یہ شر پسند ملک اگست 2021میں اپنے ہمسایہ ملک افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد سے اندرونی سلامتی کی کشیدگیوں سے دوچار رہا ہے۔ صورت حال اس وقت سے مزید بگڑ چکی ہے جب انہوں نے معصوم افغان-نژاد باشندوں کو اپنے ملک سے نکال کر عہد وسطیٰ کے افغانستان میں واپس پہنچانا شروع کیا۔ گزشتہ چند مہینوں میں پاکستانی فوج اور اداروں کے خلاف حملے عام ہوچکے ہیں مگر ایجنڈے میں اقلیتوں کے مسائل کو اب بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اگرچہ پاکستان چلاس کے حملے کو”دہشت گردی”سے منسلک کر رہا ہے۔

دہشت گردی کی آڑ میں جس واقعے کو چھپایا جا رہا ہے، اس کو الگ سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ستمبر میں مسلح افراد کے ایک گروپ نے چلاس کے نئے بس اڈے پر قبضہ کر لیا تھا اور حالیہ طور پر 30نومبر کو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے دریائے سندھ کو موڑا گیا، جو ایک دوسری کہانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قراقرم ہائی وے پر یہ حملہ گندم کی سبسڈی کے جاری مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے حکمت عملی بھی ہو سکتا ہے، جو ان دنوں مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایسے وقت میں جب گلگت بلتستان پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کررہا ہے تو اس طرح کی افراتفری سے کس کو فائدہ ہوگا۔

مقامی رضاکاروں نے بتایا کہ فلسطین-اسرائیل تنازعہ پر اپنے غم وغصے کے اظہار کے مقابلے گلگت بلتستان کے سلسلے میں حکومت کا رویہ مایوس کن رہاہے۔ سوشل میڈیا پر دونوں کے موازنے پر بحث چھڑ چکی ہے جس سے اس کی برعکس صورت حال نمایاں ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان میں پاکستان کی نوآبادیات سے متعلق کم رپورٹنگ سے اس علاقے پر فوری بین الاقوامی توجہ میں رکاوٹ آرہی ہے۔ حکومت، قانون ساز، سیاست دان اور علماء اپنے حامی گروپوں کو پاکستان مخالف بحث ومباحثے میں ملوث ہونے سے باز رکھتے ہيں۔

یہی وجہ ہے کہ عام پاکستانی باشندہ اپنے علاقے میں گلگت بلتستان کو ضم نہ کرنے اور انہیں مساوی آئینی حقوق دینے کے فیصلے کا دفاع کرتا ہے۔ اپنے لیڈروں کی طرح، پاکستانی باشندے لگاتار طالبان (جن کو اس نے پیدا کیا اور کئی دہائیوں تک سپورٹ کیا اور پناہ دی) اور پڑوسی ملک بھارت کی مبینہ مداخلت کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہيں۔ مگر افغان حکام نے اس میں طالبان کے ہاتھ ہونے کو یکسر مسترد کر دیا ہے جس کا پاکستان الزام لگاتا رہا ہے۔

الزام تراشی میں پاکستان کی جرات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے۔ علاقائی روزنامہ اخبار سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے اپوزیشن لیڈر کاظم میثم نے کہا کہ حکومت کو دیامیر کے بے گناہ لوگوں پر انگلیاں اٹھانا چھوڑ دینا چاہئے اور حقیقی دہشت گردوں کی گرفتاری پر توجہ دینی چاہئے، جن سے وزیر داخلہ بخوبی واقف ہیں۔ یہ وہی شرپسند لوگ ہیں جنہوں نے 2020میں گلکت بلتستان کے اسمبلی انتخابات کے امیدوار عابد اللہ بیگ کو اغوا کیا تھا اور مقامی تھانہ کے تھانے دار (ایس ایچ او) کو قتل کر دیا تھا۔ جناب کاظم میثم نے پاکستانی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ وہ اپنی پرانی روش کی طرح مقامی چرواہوں کو گرفتار کرکے عوام کو دھوکہ نہ دیں۔

اس دعوے کی تائید کرتے ہوئے، تحریک پاسداران (PoJK & GB) کے صدر وزیر حسنین نے اس بات پر زور دیا کہا کہ چلاس میں بس پر حملہ بڑے پیمانے پر فسادات کو ہوا دینے کی سازش کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ اسکیم تمام فرقوں کے لوگوں کے لیے ہے کہ وہ بے ہنگم بھیڑ کی شکل میں اکٹھے ہوں، تشدد سے خوفزدہ ہوں، اپنی ہم آہنگی کو بگاڑ لیں، اور اپنے حقوق کے لیے اپنی لڑائی سے سمجھوتہ کرلیں۔ رضاکاروں نے اس طرح کی مختلف بنیادوں پر بیرونی مداخلت کے مبینہ مضمرات کی نفی کی ہے۔ اس سے قطع نظر، چلاس کے حملے کا الٹا ردعمل یہ ہوا ہے کہ- گلگت بلتستان میں انقلاب پھر سے مضبوط تر ہوگیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.