غلام محمد شیخ: ایک اَن پڑھ صوفی شاعر ،لیکن شاعری روشنی کا مرکز

غلام محمد شیخ: ایک اَن پڑھ صوفی شاعر ،لیکن شاعری روشنی کا مرکز

شوکت ساحل

سرینگر: (منہ نِش سپد یا وان اِظہار ۔۔۔یِہ کس نِش چُھ نو فن ونہ نس وار ۔۔۔۔اَن پرنَس مئے چُھنہ اِنکار ۔۔۔یِہ کس نِش چُھ نو فن ونہ نس وار) یہ اشعار اُس صوفی شاعر کے ہیں ،جو اَن پڑھ تو ہیں لیکن ان کی شاعری روشنی کا ایک مرکز ہے ۔صدر کوٹ پائین ضلع بانڈی پورہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے غلام محمد شیخ ،ایک ایسے صوفی شاعر ہیں جن کا کلام ایک پڑھے لکھے شاعر سے اعلیٰ بہتر اور افضل ہے ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’بزم عرفان ‘ میں وادی کشمیر کے معروف براڈ کاسٹر عبد الا حد فرہاد سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے غلام محمد شیخ نے کہا ’میر ی عمر صرف پانچ برس کی تھی ،جب میں اپنے والد محترم کے سائے سے محروم ہوئے ۔‘ ان کا کہناتھا ‘ اُنکی پروش اُنکے نانا ۔نانی اور مامو جان نے کی ‘۔

ان کا کہناتھا ’اُنکے والد محترم کا تعلق شہر سرینگر کے مائسمہ علاقے سے تھا ،تاہم ازدواجی زندگی کے تعلق نے اُنہیں سرینگر سے بانڈی پورہ پہنچا دیا ‘۔غلام محمد شیخ گھریلو مسائل کی وجہ سے پڑھ نہیں پائے ،اس لئے انہوں نے اپنے کانگڑی بنانے کا پیشہ اختیار کیا ۔تاہم پیشہ اختیار کرنے کی بھی دلچسپ کہا نی ہے ۔جس کے لئے فائین کو ہماری آفیشل یوٹیوب چینل یا فیس بک پیچ پر جانا ہوگا ‘۔اس لنک پر کلک کریں (https://youtu.be/zwVKq3t4-U0?si=0YwRzXIMSar6LFhi)

اپنے والدہ نسبتی خضر محمد گنائی کے بارے بتائے ہیں کہ وہ پیشے سے کانگڑی بنکر تھے ،اور اُنکی ازدواجی زندگی میں صرف اور صرف بیٹیاں تھیں ۔‘ غلام محمد شیخ نے کہا کہ خضر محمد گنائی کو بیشتر لوگ یہ مشورہ دیتے تھے کہ ایک لڑکی کی شادی ایک شخص کریں ،جو گھر داماد بننے کے لئے تیار ہو ‘۔ان کا کہناتھا کہ خضر محمد گنائی اور وادی کے بلند پائیہ صوفی شاعر شعبان صاحب بانڈہ پوری کے درمیان ایک گہرا تعلق تھا ۔انہوں نے کہا ’ میری عمر 10سال کی تھی ،خضر محمد گنائی نے گھر داماد کے لئے میرا انتخاب کیا ،پانچ سال اپنے گھر میں رکھا اور پانچ سال بعد میرا نکاح ہوا ،دو سال کی ازدواجی زندگی میں اللہ تعالیٰ اولاد کی نعت سے سرفراز کیا ‘۔

غلام محمد شیخ کے کہتے ہیں ۔’ اولاد پیدا ہونے کے بعد میں نے وادی کے بلند پائیہ صوفی شاعر شعبان صاحب بانڈہ پوری کی صحبت میں رہنے کا فیصلہ لیا ، اُن کے زیر سایہ تصوف سے متعلق علم وتربیت باضابط طور پر حاصل کرنا شروع کردیا ‘۔ان کا کہناتھا ’ اچانک میں نے اپنا رہبر تبدیل کرنے کا فیصلہ لیا اور میں لالہ صاحب آر گامی کی صحبت میں چلا گیا ،جنہوں نے مجھے پہلا سبق آداب واخلاق کا دیا ‘۔

ان کا کہناتھا ’یہاں سے میرا صوفی سلسلے کاتعلق گہرا ہوا اور صوفیت کی راہ پر چل پڑا ۔میں نے اپنا رہبر کامل لالہ صاحب آر گامی کو تسلیم کیا اور دو سال بعد1968میں ،میں نے شاعری کرنا شروع کردیا ‘ ۔ان کا کہناتھا ’لالہ صاحب آرگامی نے مجھے علم اخلاق۔عمل اخلاق کے درس پر چلنے کی تلقین کی ‘۔غلام محمد شیخ کا ایک شاعری مجموعہ ’میے کلہِ وال ‘ منظر عام پر آچکا ہے جبکہ دوسرا مجموعہ زیر تریب ہے ۔

غلام محمد شیخ کے بارے میں سنخنور وں کاکہنا ہے کہ گوکہ غلام محمد شیخ اَن پڑھ صوفی شاعر ہیں ،تاہم ان کی شاعری اور کلام میں جو اصطلاح استعمال کی گئی ،وہ پڑھے لکھے شعرا ءکو بھی سوچنے پر مجبوری کردیتی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ غلام حمد شیخ کی صوفیانہ شاعری کے تئیں خدمات قابل تحسین ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.