کیاسہانا وقت تھا نہ انٹرنیٹ کی وبا پھیلی تھی نہ سوشل میڈیا عام تھا۔ خبروں کا سب سے بڑا ماخذ اخبارات تھے یا پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن۔ ریڈیو ٹیلی ویژن بھی بریکنگ نیوز کے جھنجھٹ سے آزاد تھے۔ ہم سے بہت ساروںنے بچپن میں یہ دور بھی دیکھا ہوگا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اخبارات کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا دائرہ کار بھی سکڑ رہا ہے۔ انٹر نیٹ پر چلنے والی موبائل ڈیوائسز ٹی وی کی روایت کو منقطع کر رہی ہیں۔ اطلاعات کا طوفان اس قدر منہ زور ہے کہ اس سے بچنا محال ہے۔
ترقی پذیر معاشروں میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام ،وٹس ایپ اور ٹک ٹاک ایک نشے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اس نشے کا شکار نوجوان نسل زندگی کی ان حقیقی رنگینیوں سے واقف نہیں جو ہمارے سے پہلی نسل کانصیب تھیں۔ ٹیکنالوجی نے دنیا کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس تبدیلی کو اپنی معاشی اور سماجی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہی فن ہے۔
لیکن افسوس ہم نے سوشل میڈیا سے دوسروں کی تضحیک، عزت داروں کی پگڑیاں اچھالنے اور ٹوٹے دیکھنے کے سوا ڈھنگ کا کوئی کام نہیں لیا۔ ہم جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت سے منکر نہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا کو رُسوا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے کچھ فوائد بھی ہیں بلکہ یہ فوائد کچھ سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس زیادہ کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔
رائے یہ ہے کہ معاشرے میں پنپتے ”ابال“ کو ٹھنڈا کرنے میں سوشل میڈیاکا کردار بڑھتاجار ہا۔ معاشرتی اور معاشی نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے اس ”ابال“ کا ہونا بہت ضروری ہے۔تاہم اب اگر صحافیوں’ مائیک ‘لیکر گھریلو تنازعات کو خبر بنا کر پیش کر یں ،تو یہ کسی المیہ سے کم نہیں ۔گزشتہ چند کے روز دوران ایسے ویڈیوز سامنے جن میں ایک صحافی باپ ۔بیٹے کے تنازعے ،سانس ۔بہو کے جھگڑے ،میاں ۔بیوی کی تکرار ،یہاں تک کہ اگر کسی کشمیر ی نے کسی غیر ملکی سے شادی کی ہے ۔یہ بھی اُن صحافیوں کے لئے خبریں ہیں،جو سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور ’ویوز ‘ کی تلاش میں غرق رہتے ہیں ۔صحافی برادری کے لئے یہ المیہ میں ایسے میں سینئر اور تجربہ کار صحافیوں کا رول اہم بنتا ہے ۔
صحافتی اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال محض ’ویوز ‘ کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں بلکہ غیر منظم صحافت کو منظم کرنے میں اپنا رول ادا کریں ۔گھریلو تنازعات کے حل کے لئے محلہ کمیٹیوں سے لیکر عدالتیں موجود ہیں ۔سوشل میڈیا پر کسی کی بھی عزت اچھالنا صحت ِ صحافت کے لئے صحیح نہیں ہے ۔نوجوان صحافیوں ،جو یونیورسٹیوں اور کالجوں سے پڑھائی حاصل کرنے کے بعد صحافت کے عملی میدان میں آئے ہیں ،کو چاہیے کہ وہ تجربہ کار صحافیوں کی صحبت میں رہیں اور تجربہ حاصل کریں ۔صحافت کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے ،لیکن صحافت کے اصول اور بنیادی اخلاقیات کو زوال پذیر ہونے سے بچا نے کے لئے تعلیمی اداروں کو بھی اہم رول ادا کرنا ہوگا کہ عصر حاضر میں ڈیجیٹل میڈیا کیسے اپنے رول ادا کر سکتا ہے ۔