22اکتوبر جموں کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس نے نہ صرف جموں کشمیر کے عوام کو مصائب و مشکلات کے بھنور میں پھنسا دیا بلکہ اس متحدہ ریاست کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔اسی روز قبائلوں کی بھیس میں پاکستانی فوج نے جموں کشمیر پر مختلف جگہوں سے حملہ کیا۔پاکستانی حکمران اگر چہ اس حملے سے خود کو الگ رکھتے تھے ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس حملے میں براہ راست پاکستانی فوج اور حکمران ملوث تھے ،جس کا اعتراف خود حملہ میں شریک جنرل اکبر خان نے اپنی کتاب چھاپہ مار میں کیا ہے، جو بعد میں میجر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔
اس حملے کو اگر چہ جموں کشمیر کے عوام اور ملک کی فوج نے ملکر ناکام بنا دیا لیکن اس حملے کی آڑ میں جو زخم کشمیر ی عوام کو دیئے گئے ہیں وہ آج تک کشمیر ی عوام بھول نہیں پائے ہیں۔اوڑی،بارہمولہ ،راجوری اور پونچھ میں جس طرح لوٹ مار اور عورتوں کے ساتھ دست درازی کی گئی وہ واقعی تاریخ کشمیر کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔
پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان، جنہوں نے اس سازش کو اپنے فوجی افسران کے ساتھ ترتیب دیا تھا ،انہیں بعد میں اسی فوج کا نشانہ بننا پڑا ۔جہاں تک اس فوجی کمک کے کمانڈر اکبر خان کا تعلق ہے، انہیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا اور اُن کی لکھی گئی کتاب کشمیر کے چھاپہ مار پر بھی پابندی عائدکی گئی۔پاکستان کے فوجی اور انتظامی حکمرانوں کو اس بات کا جب شدت سے احساس ہونے لگا کہ ہم جنگ سے کچھ حاصل نہیں کر سکے ہیں، تو انہوں نے ایک اور منصوبے کو عملا کر نہ صرف کشمیر ی عوام سے بدلہ لینے کی کوشش کی بلکہ بھارت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے درپردہ جنگ شروع کی جو ابھی تک جاری ہے۔
پہلے پنجاب اور پھر جموں کشمیر میں درپردہ جنگ کی آڑ میں انسانی خون بہایا گیا اور مال و جائید اد کو نقصان پہنچایا گیا۔1990میں شروع کی گئی ملی ٹنسی کو پہلے مذہبی رنگ دیا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیر ی پنڈتوں کو اپنے ابا و اجداد کی وراثت چھوڑ کر ملک کے مختلف حصوں میں کسمپُرسی کی زندگی گزارنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ اس در پردہ جنگ سے جموں کشمیر میں انتظامی اور سیاسی ڈھانچہ منہدم ہوا۔لیکن جب عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اُن نوجوانوں اور سیاستدانوں کو پاکستان کی اصل نیت کا پتہ چلا، تو انہوں نے اپنا منہ موڑ کر وہ سب کچھ چھوڑ دیا جس سے اُن کی زندگی اجیرن بن چکی تھی۔
جب انہیں ان باتوں کا علم ہو ا کہ انہیں صرف اپنے اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، تو انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر حالات کا رخ بدل دیا،اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج جموں کشمیر میں نہ صرف تعمیر و ترقی ہو رہی ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں پھر سے آنے لگے۔آج عالمی سطح کی کانفرنسیں وادی میں ہو رہی ہیں ۔یوم سیاہ منانا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس اقدام سے اُن لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے ،جو ابھی بھی اس خواب غفلت میں محو ہیں کہ سرحد پار ہمارے دوست اور محسن ہیں، تاکہ وہ بھی اصل حقائق سے واقف ہوںاورعام لوگ بھی دشمن اور دوست کے درمیان فرق کر سکیں۔