جموں کشمیر میں بدلتی زمینی صورتحال اور ہر سو امن و خوشحالی کا سہرا موجودہ مرکزی سرکار اور ایل جی انتظامیہ کے سر جاتا ہے، جنہوں نے دفعہ370کے خاتمے کے بعد وادی میں نہ صرف ملی ٹنسی کو قابو کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے بلکہ زمینی سطح پر تعمیر و ترقی کی رفتار بھی بڑھائی ہے۔شہر کو سماٹ سٹی کے دائرے میں لاکر نہ صرف سڑکوں اور فٹ پاتھوں کو بحال کیا گیا بلکہ جہلم کے کناروں کو پھولوں کی کیاریوں سے سجا کر پورے شہر کو جاذب نظر بنا دیا گیا۔
شہر کی بڑی سڑکوں کے ساتھ ساتھ گلی کوچوں میں بھی ا سٹریٹ لائٹیں نصب کر کے ایک تاریخ رقم کی گئی ۔لوگوں نے بہت حد تک سکون اور راحت کاسانس لیااور انہوں نے اپنے بچوں کو بنا کسی خوف و ڈر کے اسکولوں ،کالجوں اور دیگر تربیت گاہوں میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا۔اس سے قبل اگر دیکھا جائے تو روز روز کے ہڑتالوں اور تشدد کے واقعات کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے لئے فکر مند رہتے تھے۔جگہ جگہ پتھراﺅ ہوتا تھا اور اکثر بچے سنگ بازی کی طرف راغب ہوتے تھے اور اس طرح سینکڑوں بچوں کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہوئے اور کئی قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔غرض مختلف سیاستدان اور ملک دشمن عناصر ان بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرکے صرف اپنی روٹیاں سیک لیتے تھے۔باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ بات ثابت ہو رہی ہے کشمیر مسئلہسیاسی سے زیادہ انتظامی مسئلہ تھا۔عام لوگوں کو درکنار کرتے ہوئے سابق سیاستدانوں اور حکمرانوں نے صرف اپنے من پسند لوگوں کو ہر طرح کا فائدہ پہنچایا ہے۔
اس طرح امیر اور غریب کے درمیان ایک بہت بڑا فرق نظر آرہا تھا اور غریب لوگوں کے بچے غلط راستوں پر جانے کے لئے مجبور ہو رہے تھے۔اب چونکہ گزشتہ چار برسوں میں ایک نمایا ں تبدیلی زمینی سطح پر آچکی ہے، اکثر نوجوان تعلیم و تربیت کے علاوہ روز گارکمانے میں لگے ہیں۔ جہاںتک استحصالی عناصر کا تعلق ہے وہ بھی بات کو سمجھ چکے ہیں کہ انہیںملک دشمن طاقتیں اپنے زاتی اغراض و مقاصد کے لئے فقط استعمال کررہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے بھی وہی راستہ اختیار کیا، جو مرکزی حکومت کی چاہتی تھی۔وہ بھی بغیر کسی جنگ و جدل کے اپنی زندگی بہتر اور خوشحال طریقے سے چلانے پر گامزن ہوگئے ہیں۔
دانشور اور اہل فکر حضرات بھی اب ترقی اور خوشحالی کی اور بڑھنے کی عام لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی سرکار اور ملک کے انتخابی کمیشن کو اسمبلی انتخابات منعقد کرانے کے حوالے سے فیصلہ لینا چاہے،تاکہ عوام اپنی پسند کی حکومت قائم کرکے اپنے روز مرہ کے مسائل حل کرنے کی خاطر اپنے ایسے اُمیدوار چُن لیں ،جو اُن کی حقیقی معنوں میں مدد کر سکے ۔لیکن مرکزی سرکار کو ایک ایسا قانون انتخابی عمل سے پہلے ضرور نافذ کرنا چاہئے کہ جن سیاستدانوں نے پہلے ایام میں لوٹ کھسوٹ کرکے غریبوں کے مال و حقوق پر شب خون مارا ہے ،انہیں انتخابی عمل سے قبل ہی بلیک لسٹ کرنا چاہئے تاکہ وہ لوگ دولت کی آڑ میں پھر سے ایم ایل اے یا وزیر نہ بن جائے ،اس طرح انہیں دوبارہ لوٹ کھسوٹ کرنے اور رشوت کمانے کا موقعہ نہ مل جائے۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو انتخابات میں آنے کے بعد پھر حالات کروٹ بدل سکتے ہیں اور پوری محنت پر پانی پھرسکتا ہے جو مرکزی سرکار اور ایل جی انتظامیہ نے گزشتہ چار برسوں کے دوران کی ہے۔