ڈل زوال پذیر

ڈل زوال پذیر

ڈل جھیل وادی کا چہرہ تصور کی جاتیہے اور اس ڈل کے بدولت وادی کشمیر کو پوری دنیا میں ایک الگ اور منفرد پہچان حاصل ہے۔باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس با ت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ اس خوبصورت جھیل کی بدولت سے وادی کے ہزاروں افراد کو روز گار فراہم ہوتا ہے ۔

سیاحت کے شعبے سے منسلک ہزاروں افراد جن میں ہاﺅس بوٹ مالکان،شکاراوالے،گائیڈ،ہوٹل اور رسٹوران مالکان کے علاوہ ڈل کے ارد گرد آباد مچھواروں،سبزی فروشوں اور زمینداروں کا فصل اُگانے والے یہاں سے ہی اپنا اور اپنے اہل و عیال کے لئے روزی روٹی کماتے ہیں۔جب اس ڈل کی تاریخ کا مطالع کرتے ہیں ،تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس ڈل کا دائرہ لگ بھگ 75مربع کلو میٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ارد گرد آباد افراد اور اثر و رسوخ رکھنے والوں نے اس ڈل کی زمین کو نہ صرف ہڑپ لیا ہے بلکہ اس تواریخی جھیل کو گندہ کرنے میںنمایاں رول ادا کیا ہے۔آج کی تاریخ میں اس ڈل کا دائرہ صرف 12کلو میٹر مربع رہا ہے ۔

جہاں تک اس جھیل کا تعلق ہے اس کی دیکھ ریکھ اور صحت و صفائی کےلئے وقت وقت پر حکمرانوں نے منصوبے ہاتھ میں لئے لیکن آج تک سبھی محکمے ان منصوبوں کو عملانے میں ناکام رہے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے آج اس ڈل کا پانی اس قدر گندہ ہو چکا ہے کہ یہاں سے گزرنے والا انسان چا ہے وہ مقامی ہو یا پھر بیرونی سیاح ہو یہاں کی بدبو سونگ کر بھاگ جانے پر مجبور ہو رہا ہے۔

اس ڈل کی صحت و صفائی اور دیکھ ریکھ کےلئے آج تک اربوں روپے مرکزی سرکار اور عالمی اداروں نے واگزار کئے ہیں لیکن پھر بھی یہ ڈل صاف نہیں ہو رہا ہے۔ان رقومات سے وزیر ،مشیر اور دیگر منسلک افسران و ملازمین اور ٹھیکہ دار مالدار ہو گئے لیکن ڈل کی صفائی ندارد۔یہاں یہ بات کہنا بھی بے حد لازمی ہے کہ اس ڈل کا نصف حصہسُرخ ہو گیا ہے اور گزشتہ دنوں اس ڈل سے لاکھوں کی تعداد میں مچھلیاں مرگئیں اور اب تک اس حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ آخر معاملہ کیاہے۔یہ کہاوت مشہورہے کہ’ کوئی بات نہیں ہے مشکل ،،جب کیاجائے ارادہ پختہ‘۔جہاں تک اہل وادی کا تعلق ہے یہ لوگ خود بھی گہری نیند میں ہیں اور جہاں تک اہل اقتدار کا تعلق ہے، وہ بھی ہمیشہ سے لاپروائی سے کام لےتے آئے ہیں۔

جہاں تک مقامی ٹھیکہ داروں کا تعلق ہے، جو اس ڈل کی صفائی کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ بھی اپنی مرغی حلال کرنے کی ہی سوچ رہے ہیں۔جہاں تک جموں کشمیر سے باہر کی جگہوں کا تعلق ہے ،وہاں کے آبی ذخیروں اور چھوٹی چھوٹی جھیلوں کی صحت و صفائی اور خوبصورتی دیکھ کرذی حس کشمیری کا دل کھل اُٹھتا ہے اور اپنے دانتوں تلے انگلی دبا دیتا ہے کہ آخر ہماری وادی میں ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔اگر واقعی مرکزی حکومت اور جموں کشمیر کی موجودہ انتظامیہ ڈل کی صفائی کے حوالے سے فکر مند ہے ، پھر انتظامیہ کوڈل کی صفائی کا کام کسی غیر ملکی ایجنسی کو دینا چاہئے تاکہ وادی کا یہ اہم سرمایہ محفوظ رہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.