جمعرات, مئی ۱۵, ۲۰۲۵
20.7 C
Srinagar

سائبر جرائم کا بڑھتا رجحان

موبائل فون،انٹرنیٹ اور جدیدطرز کے مواصلاتی نظام سے انسان کو بہت حد تک آسانیاں ہوئی ہیں اور اس انٹرنیٹ کی بدولت سے پوری دنیا ایک گاﺅں میں تبدیل ہو چکا ہے ۔دوریاں مٹ گئیںاور لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں ۔اب دنیا کے ایک کونے سے انسان دوسرے کونے میں رہ رہے انسان کے ساتھ بات کر سکتا ہے اور اےک دوسرے کے نظام زندگی،رہن سہن،تہذیب و تمدن اور زبان و ثقافت سے نہایت ہی آسانی سے واقف ہو سکتا ہے۔جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے یہ بھی چند برسوں کے اندر اندر پوری طرح سے ڈیجیٹل ہو نے جارہا ہے،محکمہ مال کے ساتھ ساتھ دیگر سبھی محکمے اب تمام ریکاڑ ڈیجیٹل لائز کرنے جارہے ہیں ۔جہاں تک بینکوں کا تعلق ہے اب ہندوستان کا عام آدمی بھی موبائیل ہاتھوں میں لیکر ای بینکنگ کا استعمال کر رہا ہے۔

اب نہ ہی بینکوں میں وہ قطاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور نہ ہی محکمہ مال کے پٹواریوں کے پاس جا کر نقشہ انتخاب یا اور کوئی کاغذ حاصل کرنے کے لئے منتیں کرنی پڑتی ہیں،جہاز کی ٹکٹ حاصل کرنی ہو یا کوئی اور رجسٹریشن سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے۔ہر اےک فرد موبائیل فون سے کام چلاتا ہے ۔آج کل کوئی بھی انسان پُرانے ایام کی طرح جیب میں نوٹ لیکر بازار نہیں جاتا ہے بلکہ اشیاخوردنی اور ضرورت کی ہر چیز بھی اب آن لائن خریدی جاتی ہے۔غرض اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ اس جدید ڈیجیٹل نظام سے بہت زیادہ سہولیت بنی نواع انسان کو ملی ہے۔مگر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس نظام سے جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

بینک کھاتوں میں معمولی رقم جمع ہوتے ہی مختلف نمبرات سے صارفین کو فون کالز آنا شروع ہو جاتی ہیں۔کبھی بجلی بل سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں اور کبھی آدھار کاڑ کی درستی اور کبھی پین کاڑ اور کبھی راشن کارڈ سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں، اس طرح اُن کے بینک کھاتوں کا پتہ لگا کر اُن کے رقومات لوٹ لئے جاتے ہیں۔آج تک صرف جموں کشمیر سے ہی اس طرح کروڈوں روپئے لوٹ لئے گئے حد تو یہ ہے کہ ان صارفین میں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہی شامل ہیں۔سرکار نے اس طرح کے جرائم کو روکنے کے لئے باضابطہ ایک سیل قائم کی ہے، جو اس طرح کے ہیکرس پر نظر گزر رکھتی ہے اور ان جرائم کو قابو کرنے میں دن رات یہ سیل کام کرتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر بینک کھاتوں پر کس طرح ان ہیکرس کی نظر پڑتی ہے۔

ہیکرس کے ساتھ یا تو بینک ملازمین ملے ہوتے ہیں جو انہیں خفیہ طور بینک کھاتوں سے متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہیں یا پھر بینکوں کا ڈیجیٹل نظام غیر محفوظ ہے۔جہاں تک محکمہ مال کے پٹواریوں کا تعلق ہے، انہوں نے بھی ڈیجیٹل ریکارڑ بناتے وقت ریکاڑ میں بہت ساری خامیاں رکھی ہیں۔کہیں احمد کی ٹوپی محمود کے سر رکھی ہوتی ہے اور کہیں پرانی جمع بندی ریکاڑ کو ہی اُلٹا کیا گیا ہوتاہے۔

انتظامیہ نے اس حولے سے ریکارڑ میں درستی کرانے کا منصوبہ یاتھ میںلیا ہے لیکن عام لوگوں کا جو پیسہ اور وقت ضائع ہو جاتا ہے ،اُس کی بھر پائی کون کرئے گا۔غرض جہاں ڈیجیٹل نظام سے فائدہ حاصل ہو ا ہے، وہیں بہت سارے لوگ سائبر جرائم سے مشکلات میں پڑجاتے ہیں۔انتظامیہ کے ذمہ اداروں کو اس حوالے سے نہ صرف سخت قوانین بنانے چاہئے تاکہ مجرم کسی کا کھاتہ ہیک کرنے یا کسی کے ریکارڑ میں قلم زنی کرنے سے قبل سو بار سوچ لے کہ میں یہ جرم کروں کہ نہیں۔ساتھ ہی محکمہ مال کے ذمہ داروں کو ریکاڑ درست کرانے کے لئے پٹواریوں کوعلاقوں میں بھیجنا چاہئے اور ریکاڑ درست کرنا چاہئے تاکہ ڈیجیٹل نظام رشوت ستانی اور تباہی کی بنیاد نہ بنے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img