منشیات کا حصار

منشیات کا حصار

نئی نسل کسی بھی ملک کی معاشی،تعلیمی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقی میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔کہتے ہیں کہ جوانی وہ عرصہ حیات ہے؛ جس میں اِنسان کے ارادے مضبوط اور حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ایک باہمت جوان پہاڑوں سے ٹکرانے،طوفانوں کا رخ موڑنے اور آندھیوں سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

ہم اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک زمانہ تھا جب اسکولوں، کالجوں میں کھیل کے میدان ہوتے تھے، جہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے، اس میں ہر طبقے کے بچّے شامل ہوتے تھے، ان کھیلوں کے ذریعے صبر و برداشت،دوڑ دھوپ اورمقابلہ کرنے کے جذبات پیدا ہوتے تھے،مگر افسوس کہ آج ہمارے نوجوان جہد و عمل سے کوسوں دور انٹرنیٹ اور منشیات کے خوفناک حصار میں جکڑے ہوئے ہیں،انھیں اپنے تابناک مستقبل کی کوئی فکر نہیں،وہ اپنی متاع حیات سے بے پرواہ ہوکر تیز رفتاری کے ساتھ نشہ جیسے زہر ہلاہل کو قند سمجھ رہے ہیں اور ہلاکت و بربادی کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔اب تو سگریٹ وشراب نوشی کی وجہ مجبوری یا ڈپریشن نہیں ہے ،بلکہ ہم عصروں اور دوستوں کو دیکھ کر دل میں انگڑائی لینے والا جذبہ شوق ہے،جو نوجوانوں کو تباہ وبرباد،ان کے زندگی کو تاریک واندھیر او ر ان کی جوانی کوبہ تدریج کھوکھلا کرتاجارہاہے۔

دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک دو بارنشہ استعمال کرنے والا فرد کچھ عرصے بعد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اسے نشہ ہر حال میں استعمال کرنا ہے پھر وہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس کی تلاش، خرید اور استعمال میں صرف کردیتا ہے اور چاہ کر بھی اس عمل کو روک نہیں سکتا چاہے اس کی زندگی کے اہم معاملات (خاندان، اسکول، کام) بھی اس کی وجہ سے متاثر ہورہے ہوں۔ کشمیری سماج میں منشیات کی وبا نوجوان نسل کو اس طرح نگل رہی ہے کہ جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔وجوہات بہت ساری ہے ،ایک تو نوجوان نادانی میں منشیات کے حصار اور اسکی بھول بھلائیوں میں پھنس جاتا ہے ،وہیں رات ورات کروڑپتی بننے کے خواب میں ایسا قدم اٹھائے جاتے ہیں ،جس کی منزل اجتماعی معاشرتی تباہی ہے ۔

منشیات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھی معاشرے میں پھیلا جارہا ہے ،تاکہ نوجوان نسل جو اس قدر ذہین اور قابل ہے کہ وہ ملکی کیا بلکہ بین الاقوامی سطح کے مسابقتی امتحانات میں کامیابی کی نئی نئی تاریخیں رقم کرکے دنیا کو معترف کر رہی ہے ۔لیکن منشیات کی وبا پھیلانے والے ہماری نسل کو آسانی کیساتھ ہدف بنا رہی ہے ۔پولیس آئے روز منشیات کی وبا کو پھیلانے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل رہی ہے جبکہ بعض پر پبلک سیفٹی ایکٹ ( پی ایس اے) عائد کرکے پابند سلا سل بنایا جارہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی محض گرفتاری اور ضبطی کی کارروائیاں ہی اس کا حل ہے ۔یا اسکولوں سے بچوں کو فارغ کرنا اس کا حل ہے ،جیسے ایک سرکاری حکمنامہ آنکھوں سے گزرا ۔یہ یقیناً منشیات کی وبا کا حل نہیں ۔بچوں کو پلے کارڈ دیکر ریلیاں نکالنے بھی اس کا حل نہیں ۔بلکہ اب ”آﺅٹ آف بکس “ سوچنے کی ضرورت ہے ۔

اب منشیات کی وبا پھیلانے والے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے جب تک اس نیٹ ورک کو مکمل طور پر نہیں تھوڑا جاتا ،جب بیداری مہم یا قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائیاں رنگ نہیں لائیں گی ۔ضروری ہے ۔اس کی جڑ کو پکڑا جائے اور معاشرے ہر ایک طبقے کے نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم لایا جائے ،تاکہ پیغام یکساں طور پر جائے کہ اس وبا سے کیسے نمٹا ہے ۔بانت بانت کی بولیاں ،سیاسی خطاب ،ریلیاں نکالنا،سمینار ،سمپوزیم اور بڑی بڑی تقاریر سے منشیات کی وبا کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ والدین کو اپنی عادات تبدیل کرکے اپنے چھوٹے ،بڑے ،کمسن اور جوان بچوں کیساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا ہوگا ،اُنکی نشو نما کا خاص کرنا ہوگا ۔اساتذہ کا رول اہم ہے ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائیوں کیساتھ ساتھ اُس جڑ کو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہیے ،جو کشمیری سماج اور معاشرے کو تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔وقت آگیا ہے منشیات کے حصار ،جس کی زد میں نوجوان نسل ہے ،کو توڑنے کیلئے چاروں اطراف سے ایک ساتھ حملہ کیا جائے اور مستقبل کو تابناک اور محفوظ بنانے کی نئی تحریر رقم کی جائے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.