کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی میں زمینداروں کا اہم رول ہوتا ہے، جو کسان نہ صرف اپنی محنت اور خون پسینے کی بدولت آس پاس رہنے والے لوگوں کے لئے بغیر کسی رنگ و نسل اور ذات پات کے اناج، پھل اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں فراہم کر رہے ہیں اور اسطرح ملک اور سماج میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔کسان ہی پشو پالن کی وساطت سے گوشت اور دودھ فراہم کرتا ہے۔پوری دنیا میں دودھ کا عالمی دن منایا گیااور اس حوالے سے واد ی میں بھی تقریبات کا اہتمام ہوا،جن کے دوران کسانوں کو دودھ کی بہتر پیداوار سے متعلق طریقہ کار اور تجاویزماہرین نے سامنے رکھے۔
ملک میں سفید انقلاب کے بانی ورگس کورین کو مانا جاتا ہے جو پیشہ سے ایک انجینئر تھے اور کولکتہ کے رہنے والے تھے، جس سے آج کولکتہ کے نام سے لوگ جانتے ہیں ۔ورگس کورین نے اپنی ڈیوٹی کے دوران گجرات کے دیہی علاقوں میں غریب کسانوں کی حالت دیکھ کر انہیں دیہی سطح پر دودھ ایک جگہ جمع کرنے کی ترغیب دی۔ اسطرح سرکاری نوکری چھوڑ کر ان ہی کسانوں کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کی۔انہوں نے دیہی علاقوں میںدودھ جمع کرنے والی کمیٹی کو وسعت دیکر اس کو ضلع اور ریاستی سطح پر قائم کیا۔امول فیکٹری جس کے آج عالمی سطح پر چرچے ہورہے ہیں اور اس کے یونٹ پوری دنیا میں موجود ہیںاسی انجینئر ورگس کورین کی دین ہے۔
جہاں تک ہماری وادی کے کسانوںکاتعلق ہے، انہوں نے پشو پالنے سے دوری اختیار کی ۔آج کی تاریخ میں دیہی علاقوں کے لوگ بازار سے دودھ خریدتے ہیں جس میں ملاوٹ بھی ہو تی ہے اور اس طرح جان بوجھ کر اپنی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔موجودہ مرکزی سرکار نے اگر چہ کسانوں کو پشو پالن خاصکر گائے خریدنے اوراس کے رہن سہن کے لئے سبسڈی پر قرضے دے رہی ہے، لیکن پھر بھی یہاں کے لوگ اس کام کی جانب راغب نہیں ہو رہے ہیں۔اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اب پرانے ایام کی طرح گائے یا بیڑ، بکریاں پالنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس کا چارہ بھی اب مہنگے داموں بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔
پہلے ایام میں دیہی علاقوں میں ان جانوروں کو چروانے کے لئے کھلے میدان اور وسیع اراضی ہوتی تھی جس پر لوگوں نے ناجائزقبضہ جمایا ہے اور بڑے بڑے مکان اور عالی شان شاپنگ کمپلیکس تعمیر کئے ہیں۔اس طرح ایک کسان کے لئے مشکلات پیدا ہو گئے اور اُس نے گائے یا بیڑ بکریاں پالناچھوڑ دیا۔اب اگر سرکار جموں کشمیر میں سفید انقلاب لانے کی بات کرتی ہے تو یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک نہ ان پشوﺅں کو چرانے کےلئے زمین دستیاب نہ ہو۔اگر سرکار واقعی مرکز کے زیر انتظام والے اس خطے میں سفید انقلاب لانا چاہتی ہے ،دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ کرنا چاتی ہے تو اولین فرصت میں اُن لوگوں سے وہ کاہچری واپس حاصل کرنی چاہئے جس پر اثر رسوخ رکھنے والے لوگوں نے ناجائز قبضہ جمایا ہے اور کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہونے کے لئے ایسی اسکیمیں متعارف کرنی چاہیے جن سے پیداوار میں اضافہ ہو سکے اور اقتصادی ترقی بھی ممکن ہو ۔