مادری زبانوں کی حفاظت

مادری زبانوں کی حفاظت

گذشتہ روز جموں وکشمیر کے مشہور ومعروف جھیل ڈل کے کنارے واقع انٹر نیشنل کنو کیشن سینٹر میں پنجاب ہریانہ ساہتیہ اکادمی نے ایک مقامی رضا کار تنظیم کے اشتراک سے مختلف مادری زبانوں کی اہمیت افادیت اور ترقی کیلئے ایک سمینار کا انعقاد کیا تھا ،جس میں مختلف مقررین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بچوں نے پنجابی تہذیب وتمدن کے حوالے سے اپنا ایک اسٹیج پروگرام پیش کیا ۔

جہا ں تک مادری زبانوں کا تعلق ہے ان کو فروغ دینا یا ان کا تحفظ یقینی بنانا، ہر انسان کی ذمہ داری ہے کیونکہ ایک انسان اپنی مادری زبان کے سواءکسی دوسری زبان میں بہتر ڈھنگ سے سیکھ سکتا ہے اور نہ بات کو سمجھ سکتا ہے ۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مادری زبانوں کےساتھ ساتھ ایک دوسرے کی بات سمجھنے کیلئے دوسری زبانوں کا سیکھنا بھی بے حد لازمی ہے ۔

کہا جارہا ہے کہ جب تک کسی قوم کی زبان ،تہذیب ،ثقافت زندہ ہے تب تک وہ قوم بھی زندہ رہ سکتی ہے۔

جہاں تک اپنی اپنی مادری زبانوں کا تعلق ہے ہر انسان اسکو زندہ رکھنے کیلئے اپنی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کام کرتا ہے لیکن اجتماعی طور ایک دوسرے کی زبان کو فروغ دینے کیلئے کوئی انسان وادی یا جموں میںمتحرک نظر نہیں آرہا ہے ۔

جہاں تک ہر یانہ پنجاب ساہتیہ اکادمی کا تعلق ہے، اس نے وادی میں اسطرح کا پروگرا م کر کے ایک اچھی کوشش کی ہے جس کی سراہانہ ہر فرد اور تنظیم کو کرنی چاہیے ،یہ اُن تنظیمی ذمہ دارو ں اور جموں وکشمیر کلچر ل اکادمی کیلئے لمحہ فکریہ ہے، جو آج تک مشترکہ طور کشمیری ،پنجابی ،پہاڑی اور گوجری زبان کیلئے کوئی پروگرام ایک ساتھ منعقد نہیں کرسکی ۔

بہرحال اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آئے، اُسے بھولا نہیں کہا جا سکتا ہے ۔جموں وکشمیر کلچرل اکادمی اور دیگر ادبی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایک مخصوص دائرے سے باہر آکر کام کریں ،اُن قلمکاروں ،ادیبوں ،شاعروں اور سخنوروں کو آگے لے جانے میں مدد فراہم کریں جو کسی نہ کسی طرح مختلف زبانوں کی حفاظت اور فروغ وترقی کیلئے تکدو کرتے رہتے ہیں ۔

خاصکر نوجوان قلمکار وں، ادیبوں اور شاعروں کی تخلیق کا مختلف زبانوں میں ترجمعہ کریں ،جس سے ملک کے مختلف طبقوں اور قوموں سے وابستہ لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملے گا ۔

یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضہ بھی ہے کیونکہ آج تک ہم یعنی کشمیری کنویں کے مینڈک کی مانند ثابت ہوئے، جو دوسری زبانوں پر دست رس نہیں رکھتے ہیں ۔وادی کے ادیبوں ،شاعروں ،قلمکاروں اور ادب نوازوں کو حکومت پنجاب وہریانہ کے ان ذمہ داروں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے یہاں اس طرح کا پروگرام انجا م دیا ہے ۔جو قابل تعریف اور قابل ستائش ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.