مصنف مولانا شیخ عبدالغنی وتر ہیلی کی شاعری اور فلسفہ صوفیہ کشمیرکی اصل تہذیب

مصنف مولانا شیخ عبدالغنی وتر ہیلی کی شاعری اور فلسفہ صوفیہ کشمیرکی اصل تہذیب

شوکت ساحل

بڈگام : وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے وتر ہیل گاﺅں سے تعلق عبدالغنی بٹ المعروف مو لا نا شیخ عبد الغنی وترہیلی نے اُس وقت اپنے قلم سے معاشرے اور نوجوانوں اصلاح کی جب پوری وادی نامساعد حالات کے بھنور میں پھنسی ہوئی تھی ۔پچاس کی دہائی میں وترہیل بڈگام میں ایک زمیندار گھرا نے میں پیدا ہوئے عبدالغنی نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی آبائی گاﺅں میں ہی واقع ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی ۔

امرسنگھ کالج سرینگر سے اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بی ۔ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ عبدالغنی نے اپنا تعلیمی سفر یہیں نہیں روکا بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا ۔جہاں سے انہوں نے1975میں فارسی مضمون میں ایم اے کیااور اسی یونیورسٹی میں عربی کے علیحدہ کلاسز بھی لئے ۔1978میں عبدلالغنی سرکاری ملازمت حاصل کی اور آبائی ضلع کے آری زال گاﺅں میں واقع ہائی اسکول میں استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کی مشعل ہاتھ میں لی ۔

انہوں نے اپنے علم وادب سے نوجوانوں کے مستقبل کو سنوار ا اور قوم کے معمار وں کو علم کے نور سے منور کرتے گئے ۔عبدالغنی سال2012میں لیکچر ار کے عہدے پر ریٹائر ہوئے ۔تاہم انہوں نے معاشرے کے تئیں اپنی خدمات اور ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہوئے ۔

مولانا شیخ عبدالغنی وتر ہیلی نے اب تک 14کتابیں اردو زبان میں قلمبند کی ہیں جبکہ ایک کتاب کشمیری زبان میں بھی لکھی ہے ۔اس کے علاوہ انہوں نے معاشرے اور نوجوانوں کی اصلاح کے لئے کئی کتابچے بھی لکھے ۔عبدالغنی وترہیلی کہتے ہیں ’اس وقت بھی کئی کتابیں زیر ِ قلم ہیں ‘۔اُنکی تصانیف میں ”گلدستہ حروف ، میری کہانی میری زبانی ، ماہِ مصر ، بحر عرفان ، دہکتے انگارے اور پیغام“ وغیرہ شامل ہے ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ”بزم ِ عرفان “ میں عبدالاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عبدالغنی بٹ المعروف مو لا نا شیخ عبد الغنی وترہیلی نے اپنے ماضی کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سال 1988میںوہ ضلع بڈگام کی خانصاحب تحصیل میں بحیثیت اُستاد اپنے فرائض انجام دے رہے تھے ،تواعتقاد کے ایک مسئلے نے اُنہیں لب کشائی کرنے پر مجبور کیا ،جسکے بعد وہ مبلغ منتخب ہوئے اور یہیں سے ان کا صوفیانہ شاعری اور تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے اپنا سفر شروع کیا ،جو تاحال جاری ہے ۔

عبدالغنی بٹ المعروف مو لا نا شیخ عبد الغنی وترہیلی کو انتہائی تنقید اور مشکلات کا سامنا بھی رہا ،تاہم انہوں نے اپنے قلم اور تبلیغ سے معاشرے اور نوجوانوں کی اصلاح کا سلسلہ جاری رکھا ۔اعتقاد کے بار ے میں بتایا کہ انہوں نے صوفی بزرگوں اور صوفی شعرا کی زندگیوں ،کلام اور خدمات کا مطالعہ کیااور اس شوق وذوق میں ہر گزرتے دن کیساتھ کیساتھ بڑھتا گیا اور اُنہوں نے اپنے صوفی استاد غلام محی الدین غائب کانیہامی سے روحانی اور صوفیانہ تعلیمات حاصل کیں ۔

معاشرے کو صوفیانہ تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے عبدالغنی بٹ المعروف مو لا نا شیخ عبد الغنی وترہیلی کا مشن (ایشین میل کی طرح ) جاری ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.