صحافت ایک مقدس پیشہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس پیشے کو لوگ اس لئے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا دیکھتے ہیں، کیونکہ ایک صحافی عوام کا غیر منتخبہ ترجمان ہوتا ہے ،وہ بغیر کسی ووٹ اور سپورٹ کے عام لوگوں کی ترجمانی کرتے کرتے اپنی پوری زندگی بغیر کسی عیش وعشرت اور آرام کے صرف کرتا ہے ۔
موجودہ دور میں عام لوگ ایک صحافی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں شاید سبھی صحافیوں کوبخوبی معلوم ہے ۔آج ایک اخباری مدیر عوام کا ترجمان نہیں سرکار کا غلام نظر آرہا ہے، وہ اپنے حقیر مفادات کی خاطر عام لوگوں کے مسائل ومشکلات کو نظر انداز کرتا ہے اور صرف چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے ۔
جہاں تک جمو ں وکشمیر کی صحافت کا تعلق ہے، یہاں کے صحافیوں نے ہمیشہ سے ہی مشکل ترین حالات میں کام کیا، لیکن آج حالات بالکل مختلف نظر آرہے ہیں۔
زیادہ تر وہ لوگ اس اہم شعبے میں داخل ہو چکے ہیں، جو علم وادب سے کوسوں دور نظر آرہے ہیں، جن کے پاس نقلی ڈگریاں ضرور ہیں لیکن حقیقت میں وہ صحافت کے پیشے سے متعلق بنیادی ابجد سے بھی بے خبر ہیں ۔
اسکے علاوہ آج کل بہت سارے فیس بک اور سوشل میڈیا صحافی خود کو تیس مار خان سمجھتے ہیں، وہ صرف مال وجائیداد اور آرام وآرائش کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔
ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ کوئی دوسری تجارت شروع کریں کیونکہ وہ صحافت کے پیشے پر کسی بدنما داغ سے کم نہیں ہیں جن کی وجہ سے اس اہم پیشے کی اہمیت وافادیت اور تقدس پامال ہو رہا ہے ۔
صحیح معنوں میں دیکھا جائے، زرد صحافت سے وابستہ افراد سرکار او ر انتظامیہ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اور وہ کوئی نیک یا صحیح مشورہ بھی سرکار اور عوام کو نہیں دے سکتے ہیں ،نہ ہی عوام اور سرکار کے درمیان بحیثیت ایک پل کے کام کر سکتے ہیں ۔
لہٰذا اس اہم پیشے میں شفافیت لانا بے حد ضروری ہے، جو دونوں انتظامیہ اور پیشہ ورصحافیوں کیلئے لازمی ہے اور اُن پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔