یوم جمہوریہ کے نزدیک آنے کےساتھ ساتھ پورے جموں وکشمیر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ جگہ جگہ گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے اور مختلف شاہراہوں پر ناکے لگائے گئے ہیں ۔
گذشتہ دنوں ڈانگری راجوری میں معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد نہ صرف جموں صوبے میں تناﺅ پایا جا رہا ہے بلکہ عام لوگ ان ہلاکتوں کی وجہ سے خوف زدہ ہیں ۔
اسی وجہ سے پورے پیر پنچال خطے کے لوگوں نے ان وحشیانہ ہلاکتوں کےخلا ف بغیر کسی بھید بھاﺅ اور رنگ ونسل اور مذہب کے احتجاج کیا اورہڑتال کی ۔
اس احتجاج سے اگرچہ مرے ہوئے لوگ ہرگز واپس نہیں آسکتے ہیں لیکن ملی ٹینٹوں اور اُن کے حاکموں کو یہ پیغام ضرو ر جائے گا کہ معصوم لوگو ں کی ہلاکتوں کےخلاف وہ ہمیشہ سے یکجا ہیں اور متحد رہینگے ۔
اس سلسلے میں اگرچہ ولیج ڈیفیس ممبران کو جدید اسلح سے لیس کرنے کا منصوبہ زیر غور لیکن اس جنگ کا تب تک ہرگز خاتمہ نہیں ہو جائے گا جب تک نہ سب لوگ مل کر حفاظتی اداروں کی مدد نہیں کرینگے ۔
اس سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ملی ٹنسی کی روکتھام کیلئے پاکستان سے براہ راست بات کرنی چاہیے اور انہیں واضح کرنا چاہیے کہ بھارت اس درپردہ جنگ کےخلاف جارحانہ قد م اُٹھانے کیلئے اب مجبور ہے کیونکہ رات کی تاریکی کے دوران معصوم شہریوں کو چھپ چھپ کر ہلاک کیا جا رہا ہے، اسطرح اپنے خاکوں میں رنگ بھرا جارہا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی بے حد لازمی ہے کہ پولیس اور دیگر حفاظتی دستے جو شدید سردی کے ایام میں مختلف سڑکوں، چوراہوں اور شہروں وقصبوں میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں کہ وہ عام لوگوں کو تنگ وطلب نہ کریں جو کہ ملی ٹینٹوں کا اصل مدعا ومقصد ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگ تنگ ہو کر سرکار اور انتظامیہ کے مخالف ہونے چاہیے ۔
ان تمام باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور26جنوری یعنی یوم جمہور یہ کی تقریبات کے خاتمے تک ہر حال میں چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان تقریبات میں رخنہ ڈالنے کیلئے دشمن ہمیشہ طاق میں رہتا ہے تاکہ ملک میں یوم جمہور کی خوشیوں کے دوران بدمزگی اور بددلی پھیل جائے ۔