ایل جی انتظامیہ نے سرکاری ملازمین کو ہر سال اپنی جائیداد سے متعلق تفصیلات جمع کرنے کی ہدایت جاری کی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ کون رشوت خور اور چور ہے اور کون ایماندار اور عوامی ہمدردی ہے ۔
سرکارکا یہ قدم اگرچہ دیر آید درست آید کے مصداق ہے لیکن جو ملازمین آج تک اربوں روپے ناجائز طریقوں سے کمانے میں کامیاب ہوچکے ہیں جو اب سیاست کے میدان میں بھی تقریریں کررہے ہیں ، اُن سے کوئی حساب نہیں لیا جارہا ہے ، آخر کیوں؟ ۔
جب حوالہ فنڈنگ میں ملوث لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں تو ایسے افسران یا ملازمین کو کیوں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے جنہوں نے اربوں روپے ناجائز طریقوں سے کماکر اب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ، زمین و جائیداد کے مالک بن بیٹھے ہیں ، اُن کے پاس فیکٹریاں ، عالی شان شیش محل اور کوٹھیاں ہیں ، قیمتی گاڑیاں ہیں ۔
بہت سارے سیاستدانوں نے بھی اسی طرح کی بے شمار کورپشن کی ہے ۔اگر واقعی سدھار لانا ہے تو اُن سے بھی حساب مانگاجانا چاہئے جو اصل میں تمام تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔
ایسا ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ آج بھی لوگ بے حساب لوٹ مچارہے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے نہایت ہی ہوشیاری سے ۔





