راجوری ملٹری اسپتال کے قریب گذشتہ روز صبح سویرے دو معصوم شہری اُس وقت ازجان ہو گئے ،جب ملٹری ہسپتال کے قریب نامعلوم ملی ٹینٹوں نے فائرنگ کی ۔اس واقعہ کے بعد پوری راجوری میں حالات کشیدہ ہو گئے اور لوگوں نے معصوم شہریوں کی ہلاکت کےخلا ف زور دار احتجاج کیا اور اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ۔
اس واقعہ کے فوراً بعد یہاں سیول ،فوجی اور پولیس حکام پہنچ گئے اور عام لوگوں سمجھا یاکر احتجاج ختم کروایا ۔
عام شہریوں کی ہلاکت اگرچہ ناقابل برداشت ہے لیکن جموں وکشمیر کے سیاستدان ان واقعات پر فوراً سیاست کیوں شروع کر رہے ہیں؟ ۔
اگر پیچھے مڑکر دیکھیں تو گذشتہ 3دہائیوں کے دورا ن یہاں کیا کچھ ہوا ،ایک ایک مرتبہ درجنوں لوگوں کو مارا گیا ،کبھی کراس فائزنگ میںتو، کبھی بم دھماکوں سے ،کبھی احتجاجیوں پر گولیاں چلائی گئیں، تو کبھی زمین تنازعہ کی آڑ میں ۔
ڈاکٹرفاروق عبد اللہ کی سرکار ہو یا عمر عبد اللہ کی ،مفتی محمد سعید کی سرکار ہو ،یاغلام نبی آزاد کا دوریا پی ڈی پی ،بی جے پی دور ہو ہر دور میں ا سطرح کے واقعات رونما ہوئے اور ہر وقت ان واقعات پر لوگوں نے سیاست کی جو انتہائی افسوسناک حرکت ہے ۔
جہاں تک 5ستمبر 2019کے بعد جموں وکشمیر کے حالات کا تعلق ہے وہ بالکل تبدیل ہو گئے ہیں ۔نہ ہڑتالیں ہو رہی ہں ،نہ ہی احتجاج ،نہ تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں اور نہ سیاسی اُتھل پتھل ،بلکہ ہر انسان چاہے وہ امیر ہویا غریب دو وقت کی روٹی کمانے کی فکر میں ہے۔
طلباءوطالبات تعلیم کے شعبے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل ہیں ۔تعمیر وترقی کے مناظر ہر جانب نظر آرہے ہیں، ہاں چند ایک کمزوریاں ابھی بھی انتظامی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہیں، جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
مگر اگر جموں وکشمیر کے کسی بھی علاقے میں حادثاتی طور یا کراس فائرنگ میں چند ایک لوگ مرجاتے ہیں جو ہرگز اچھی بات نہیں ،لیکن اس پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ سیاستدانوں کو عوام سے صبر وتحمل سے کام لینے کی اپیل کرنی چاہیے ۔
اگر اُن کی عوام میں کوئی ساخت موجود ہے تو۔ ورنہ ان واقعات پرایسے سخت بیانات دینے نہیں چاہیے جن سے مزید ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ ہو۔ جیسا کہ گذشتہ 3دہائیوں کے دوران ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ سیاستدانوں کی غلط سیاست سے ہی لوگ تشددکا نشان بن گئے ۔