سڑکیں جہاں سفر کو آسان بناتی ہیں، وہیں غفلت، لاپروائی اور بے ہنگم ڈرائیونگ انہیں حادثات کی گواہ بھی بناتی ہے۔ ہر موڑ پر چھپی ایک بےخبری، ہر رفتار میں چھپا ایک خطرہ، یہی آج کے سڑک حادثات کا نوحہ ہے۔ نہ صرف جانیں جاتی ہیں بلکہ خاندان اجڑتے ہیں، خواب بکھرتے ہیں، اور گلیوں میں سناٹے اتر آتے ہیں۔ یہ محض ایک اعداد و شمار کا کھیل نہیں، بلکہ روز کا کربناک انسانی سانحہ ہے۔ ایسے میں سوال یہی ہے: کیا ہماری سڑکیں محفوظ ہیں؟ اور اگر نہیں، تو ہم خاموش کیوں ہیں؟۔ایک بار پھر تیز رفتاری نے دو زندگیاں نگل لیں۔ ایک بار پھر کسی ماں کی گود خالی ہوئی، کسی باپ کی امید ٹوٹ گئی اور کسی دوست کی ہنسی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ سرینگر کے مصروف ترین علاقے ٹی آر سی کے قریب13 اور14 مئی کی درمیانی رات کو جو کچھ ہوا، وہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک لمحئہ فکریہ ہے ۔ ایک بے قابو موٹر سائیکل، ایک کھمبے سے ٹکراو¿، اور کپوارہ کے دو نوجوان، جن کی عمریں صرف 23 اور25 برس تھیں، زندگی کی دوڑ ہار گئے۔یہ حادثہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ آئے روز خبروں کی زینت بنتے یہ المناک مناظر اب ہماری زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ اور وجہ؟ ایک ہی بے قابورفتار۔
رفتار جو کسی نے سیکھنے سے پہلے پا لی، سنبھالنے سے پہلے آزما لی اور سمجھنے سے پہلے کھو دی۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جس میں انسان خود کو ناقابلِ شکست سمجھنے لگتا ہے اور یہی غرور ا±سے انجام تک پہنچاتا ہے۔ رات کے سناٹے میں جب سڑک خالی ہو اور ہوا چہرہ چیر رہی ہو، تب نوجوان خود کو کسی فلم کا ہیرو سمجھتے ہیں۔ لیکن فلموں میں حادثے ری ٹیک ہوتے ہیں، زندگی میں نہیں۔قصور صرف ان نوجوانوں کا نہیں۔ یہ ایک اجتماعی ناکامی ہے۔ والدین کی، جو محض ضد پوری کرنے کے لیے چابی تھما دیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی، جو صرف چالان کاٹ کر فرض ادا کر لیتی ہے۔ نظام کی، جو روڈ سیفٹی کو صرف اشتہاروں میں محدود رکھتا ہے اور خود سماج کی، جو حادثے کے بعد کچھ دن شور مچاتا ہے اور پھر خاموشی اوڑھ لیتا ہے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ انتظامی دعووں کے برعکس زمینی حقائق نے ایک بار پھر اپنا کربناک چہرہ دکھایا ہو۔ حادثات ، جن میں ایک بس کا کھائی میں گرنا اور ایک کشتی کا الٹ جانا شامل ہے ، ہمیں صرف انسانی جانوں کے ضیاع کی یاددہانی نہیں کرواتے بلکہ اس گہرے خلا کی نشان دہی بھی کرتے ہیں جو حفاظتی انتظامات، بروقت ردعمل اور پیشگی منصوبہ بندی میں موجود ہے۔
سڑکوں کی خستہ حالی، رہنمائی کے فقدان اور خطرناک مقامات پر انتباہی سائن بورڈز کی عدم موجودگی، یہ سب وہ پہلو ہیں جو ان حادثات کی ذمہ داری کا دائرہ صرف قدرت تک محدود نہیں رہنے دیتے۔ ایک ذمے دار معاشرے میں ایسے سانحات پر صرف تعزیت کافی نہیں بلکہ خوداحتسابی، تحقیق اور عملی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسی خبریں ماضی کا حصہ بنیں، تو ہمیں رفتار کو نہیں، شعور کو ترجیح دینا ہوگی۔ ہمیں نوجوانوں کو سکھانا ہوگا کہ بہادری کا مطلب تیز چلانا نہیں، صحیح سلامت پہنچنا ہے۔ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ احتیاط صرف ایک لفظ نہیں، ایک طرزِ زندگی ہے اور ریاست کو یہ ماننا ہوگا کہ سڑکیں صرف سفر کے لیے نہیں، زندگی کے ضامن بھی ہیں۔رفتار میں زندگی کی کوئی جیت نہیں۔ صرف نقصان ہے، وہ بھی ایسا نقصان جس کی تلافی ممکن نہیں۔ وہ پہیہ جو بے قابو ہو، کبھی منزل تک نہیں پہنچاتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک نئی سوچ، ایک نئی ذمے داری کے ساتھ سڑک پر اتریں۔ ورنہ یہ سناٹا، جو ہر حادثے کے بعد گونجتا ہے، کل کسی اور کے دروازے پر دستک دے گا۔
